کشکول معرفت |
س کتاب ک |
حدیث: سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ غَضَبِیْ: مَحْمُوْلٌ عَلَی الزِّیَادَۃِ فِی الْاٰثَارِ أَوْ تَقَدُّمِ ظُہُوْرِہَا ؎ حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پاک کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ جو روایت میں ہے کہ عرش کے سامنے حق تعالیٰ شانہٗ نے حدیث مذکورہ کی یہ عبارت کندہ کرارکھی ہے، تو یہ حق تعالیٰ کی طرف سے مراحم خسروانہ کی صفت کے ظہور کے قبیل سے ہے۔ یعنی یہ شاہی رحم ہے جس پر چاہیں گے ظہور فرمادیں گے۔بے جا غصہ اور اس کا علاج دَافِعُ الْغَضَبِ بے جا غصہ اتنا خطرناک مرض ہے کہ بیٹے کو باپ سے، بیوی کو شوہر سے، شاگرد کو استاد سے، مرید کو شیخ سے، ملازم کو آقا سے، امتی کو نبی سے اور بندے کو خدا سے لڑادیتا ہے۔ اور غصہ کا مریض خود بھی ہر وقت پریشان اور بے سکون رہتا ہے اور اپنے گھر والوں اور اپنے پڑوسیوں کو اور جس ماحول میں بھی رہتا ہے پریشان کرتا رہتا ہے اور اکثر اس کی نیند اس پر حرام رہتی ہے۔ انتقام لینے کی اُلجھنوں میں گرفتار رہتا ہے۔ مخلوق بھی ایسے لوگوں کو حقیر، ناقابلِ اعتبار سمجھتے ہوئے ان کی دوستی سے کنارہ کش، گریزاں اور نفور رہتی ہے۔ مغلوب الغضب آدمی سے آدمی دہشت زدہ اور متوحش رہتا ہے۔ اُمتِ مسلمہ ایسے لوگوں سے دین سیکھنے سے کتراتی ہے کیوں کہ فیض کا مدار مانوس ہونے پر ہے اور مانوس ہونا مغلوب الغضب انسان سے ناممکن ہے۔ بے جا غصہ والے اکثر آخر عمر میں ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہوجاتے ہیں اور اعصابی تناؤ کے سبب اکثر ان لوگوں پر فالج کا حملہ بھی ہوجاتا ہے۔ غصہ کے ساتھ لفظ بے جا کی قید سے اصلاح اور تربیت کے لیے اللہ والوں کا غصہ مستثنیٰ ہوجاتا ہے کیوں کہ وہاں نکیر تو ہے لیکن تحقیر نہیں ہے، نکیر واجب اور تحقیر حرام ہے۔ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب نور اللہ مرقدہٗ اصلاح کے لیے ------------------------------