کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
حضرت مکحول تابعی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ اس کلمہ کو پڑھنے سے ستّر قسم کے نقصان اور ضرر کو حق تعالیٰ دور فرمادیتے ہیں اور سب سے ادنیٰ فقر اور محتاجی ہے۔ صاحبِ مظاہرِ حق شارح مشکوٰۃ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ روایت اگرچہ اسناد کے اعتبار سے منقطع ہے، مگر مفہوم اور معنیٰ کے اعتبار سے قابل اعتماد ہے کیوں کہ اس روایتِ حضرت مکحول کو روایتِ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ صحیح ثابت کرتی ہے جو صحاح ستہ میں مرفوعاً منقول ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرفوع روایت سے اس روایت کی توثیق ہوتی ہے۔؎خزانہ نمبر (۳ )دوامِ عافیت و بقائے نعمت کی دُعا اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءَۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیْعِ سَخَطِکَ ؎ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! میں آپ سے پناہ چاہتا ہوں نعمت کے زوال اور عافیت کے چھن جانے سے اور اچانک مصیبت کے آجانے سے اور آپ کی ہر ناراضگی سے۔ زوال اور تحول کا فرق:زوال کہتے ہیں کسی شے کے باقی نہ رہنے کو بغیر بدل کے۔ جیسے کسی کا مال گم ہوجائے مگر اس کے ساتھ دوسری بلا و مصیبت نہ آئے تو اس کو نعمتِ مال کا زوال کہیں گے۔ اور تحوّل کہتے ہیں کہ نعمت بھی زائل ہوجائے اور ساتھ میں کوئی مصیبت و بلا بھی لگ جائے۔ حدیث پاک میں دونوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔مرقاۃ میں اس کی شرح اس طرح ہے:اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ بِدُوْنِ بَدَلٍ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ أَیْ تَبَدُّلِ عَافِیَتِکَ بِالْبَلَاءِ؎ ------------------------------