کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
نے صرف آپ کی رضا کے لیے کیا ہے تو اس کی برکت سے یہ پتھر ہٹادیجیے۔ پس وہ اس قدر ہٹ گیا کہ بآسانی یہ سب نکل گئے اور اس غم سے نجات پاگئے۔ پس اعمالِ صالحہ سے دعا میں توسّل جب بخاری شریف سے ثابت ہے، تو اسی حدیث سے استدلال کرتا ہوں کہ یہ اعمالِ صالحہ تو قالب کے اعمال ہیں اور اہل اللہ اور مقبولانِ بارگاہِ حق سے ہم کو جو محبت ہے یہ قلب کا عمل ہے اور قلب کا عمل قالب کے عمل سے افضل ہے،کیوں کہ قلب جوارح کا بادشاہ ہے، لہٰذا بدرجۂ اولیٰ اعمالِ قلب یعنی محبتِمشایخ کا واسطہ اور وسیلہ دعا میں جائز ہے، کیوں کہ بزرگوں کا وسیلہ دراصل اس محبت کا وسیلہ ہے جو ہمارے قلوب کو ان کے ساتھ ہے۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم بھی حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے اس استدلال سے بہت مسرور ہوئے۔ایک تفسیری اصولی غلطی کی اصلاح بعض نادان دوست لٹریچر نویس لکھتے ہیں کہ ہر پروفیسر قرآنِ پاک کو لغت کی مدد سے سمجھ سکتا ہے، متقدمین کے ذخیرۂ تفاسیر کی کوئی ضرورت نہیں۔ احقر ایسے لوگوں سے دریافت کرتا ہے کہ اچھاوَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ کا ترجمہ کیجیے۔ تو کہتے ہیں کہ ’’اور ستارے اور درخت سجدہ کرتے ہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ دیکھ لیا اپنی حماقت! اس کا ترجمہ صحیح یہ ہے کہ اور بغیر تنے کے پودے اور تنہ دار درخت سب حق تعالیٰ کے مطیع ہیں۔ تفسیر روح المعانی، پارہ۲۷، صفحہ۱۰۰ پر اس آیت کی تفسیر یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: وَالْمُرَادُ بِالنَّجْمِ النَّبَاتُ الَّذِیْ لَاسَاقَ لَہٗ وَبِالشَّجَرِ النَّبَاتُ الَّذِیْ لَہٗ سَاقٌ، وَالْمُرَادُ بِسُجُوْدِہِمَا اِنْقِیَادُہُمَا لِمَا یُرِیْدُ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی بِہِمَا طَبْعًا یعنی نجم سے مراد وہ درخت جو تنے دار نہیں اور شجر سے مراد تنے دار درخت ہیں۔ اس تفسیر پر جمہور کا اجماع نقل فرمایا ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے