کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
۳) حَتّٰی فَرَّقَ بَیْنَہُمَا الْمَوْتُ، یہاں تک کہ دونوں کی اس محبت کو موت ہی جدا کردے۔ یعنی خاتمہ دونوں کا اسی محبت پر ہو۔سَوَاءٌ اِجْتَمَعَا حَقِیْقَۃً اَمْ لَا خواہ ایک جگہ رہتے ہوں یا دور دور قیام ہو مگر قلب میں اتصال ہو۔ گاہ گاہ ملاقات بھی ہو۔ وہ محبت جس کا کچھ ظہور نہ ہو اس کا اعتبار نہیں ؎ دل میں اگر حضور ہو سر تیرا خم ضرور ہو جس کا نہ کچھ ظہور ہو عشق وہ عشق ہی نہیںانعامِ سابع … مخلوق میں اکرام اور محبوبیت جو لوگ اللہ والوں سے اللہ تعالیٰ کی نسبت سے محبت رکھتے ہیں اور ان کا اکرام کرتے ہیں، وہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی محبت اور اللہ تعالیٰ ہی کا اکرام ہے، جس طرح کسی کی اولاد سے محبت کرنا اور اکرام کرنا ان کے باپ کی محبت اور اکرام میں شامل سمجھا جاتا ہے۔؎ اہل اللہ کی محبت چوں کہ اللہ ہی کے لیے ہوتی ہے اس لیے تحریر ہے کہ جن لوگوں نے بزرگوں کی محبت اور ان کی صحبت اختیار کی ہے اور ان کے ناز برداشت کیے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بلندی اور عزت دنیا میں بھی عطا فرمائی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم اور مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت حاجی امداداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت اور تعلق کے بعد مخلوقِ خدا میں جو عزت ملی اور مخلوقِ خدا نے ہماری جو قدر ومنزلت کی وہ تعلق سے قبل نہ تھا۔ احقر کے قلب میں اس نعمت کی دو دلیل سمجھ میں آئی ہے:۱) مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ؎ حق تعالیٰ کے لیے جو اپنے آپ کو مٹائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو بلندی عطا فرمائے گا۔ ------------------------------