کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ارادہ اور عمد گناہ کا نہ پایا۔ (نکرہ تحت النفی فائدہ عموم کا دیتا ہے) یہ محض سہو اور چُوک تھا، لیکن بڑوں کی چوک اور سہو کو بھی عظیم سمجھا جاتا ہے، اس لیے آپ کی شانِ عظمت کے اظہار کے لیے نسیان کو عصیان سے تعبیر فرمایا گیا (چوں کہ علم الٰہی میں تھا کہ بعض نادان اس آیت سے مقامِ نبوت کو اپنے قلم سے مجروح کرکے ضَلُّوْا وَاَضَلُّوْا (گمراہ ہوں گے اور گمراہ کریں گے) کے مصداق ہوں گے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی دوسری آیت سے اس عصیان کی تفسیر نسیان سے فرمادی)۔آیت مَعِیْشَۃً ضَنْکًا کی تفسیر وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا؎ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد سے اعراض کرتے ہیں اُن کی زندگی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان کو تلخ زندگی دنیا ہی میں دی جاتی ہے۔ اس کی تفسیر یہ ہے کہ غفلت عن الحق سے قلب کا سکون چھن جاتا ہے اور قناعت، زہد اور توکل ہاتھ سے جاتا رہتا ہے۔ پس یہ شخص شَدِیْدُ الْحِرْصِ عَلَی الدُّنْیَا ہوجاتا ہے اور مُتَہَالِکٌ لِاِزْدِیَادِہَا خَائِفٌ مِّنِ انْتِقَاصِہَایعنی ہر وقت دنیا کی زیادتی کے لیے ہلاک ہوتا رہتا ہے اور دنیا کی کمی سے خوفزدہ رہتا ہے۔ یہی تلخ زندگی ہے۔؎ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وعظ میں فرمایا کہ اگر شہوت کے گناہ میں مبتلا ہے تو اس کو ہر وقت خوف رہتا ہے کہ کسی کو کہیں اطلاع نہ ہوجاوے۔ پس یہ بھی تلخ زندگی ہے اور مَعِیْشَۃً ضَنْکًا ہے۔ نگاہِ اقرباء بدلی مزاجِ دوستاں بدلا نظر اِک اُن کی کیا بدلی کہ کُل سارا جہاں بدلا ------------------------------