کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
کریں کہ ایک طرف ٹائی، کوٹ پتلون والے، شراب پینے والے اور سور کھانے والے کھڑے ہیں۔ دوسری طرف مقدس اور پاکیزہ حیات والے انبیاء علیہم السلاماور اولیائے کرام کی جماعت ہے جن کی صورتوں سے اللہ تعالیٰ کے انوار برستے ہیں اور دوسری طرف کی صورتوں سے شیطانی ظلمت کے سائے گرتے ہیں، عقل خود فیصلہ کردے گی کہ کس کی بات ماننے میں فلاح و کامیابی ہے۔ڈارون کی تھیوری کا انجام دہریت کی بلند پروازی اور ان کی مضحکہ خیز تحقیق ڈارون صاحب نے اپنا ایک نسب نامہ پیش کیا ہے اور جن کے پیش کردہ شجرہ پر بہت سے عقل و فہم کی سلامتی سے یتیم اور اپنے خالق و مالک کی عطا فرمودہ روشنی سے ناآشنا اور محروم اور بزعمِ خود دانشورانِ زمانہ کے امامِ بے وضو نے بہت دادِ تحسین پیش کی، لیکن ذرا ایک صاحبِ نسبت اور حاملِ نورِ حق قلب کی زبان کا جواب سنیے۔ ارشاد حضرت حکیم الامّت مجدد الملّت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانوی مع تشریح ازا حقر سنا ہے کہ ڈارون کی تحقیق ہے کہ انسان دراصل بندر تھا اور ہم لوگ بندر ہی کی اولاد ہیں، پہلے اس کی دُم اس طرح جھڑی کہ اس کے بواسیر ہوئی اور بے پناہ خارش ہوئی، اس بندر نے ایک کھردرے پتھر پر خارش کی تسکین کے لیے دُم کی جڑ کو رگڑا، رگڑتے رگڑتے دُم غائب ہوگئی پھر اور ترقی ہوئی، جب خارش پھر بھی نہ اچھی ہوئی تو بے چینی سے اگلے دونوں ہاتھوں کو اُٹھاکر شور خارش مچاتا ہوا بھاگنے لگا، حتیٰ کہ اس کی عادت انسان کی طرح چلنے کی ہوگئی۔ پھر اسی بدحواسی میں اس کی بندر والی کِھر کِھرارتقائی تبدیلی حاصل کرتے ہوئے انسانی آواز کے مشابہ ہوگئی اور پھر وہ انسان کی صورت میں ہوکر انسانی آواز سے باتیں کرنے لگا۔ اس قسم کے زٹلیات کا جواب دینے کے لیے بعض ناپختہ علم و عقل نے قلم