کشکول معرفت |
س کتاب ک |
قلب کا نام قلب اس لیے رکھا گیا کہ وہ متقلب فی الامور ہوتا ہے اور اس نام کے ساتھ قلب کو خاص کیا گیا کیوں کہ قلب امیرالبدن ہے، امیر کی صلاح سے رعایا کی صلاح ہوتی ہے اور اس کے فساد سے رعایا کا فساد ہوتا ہے۔ علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اصلاحِ قلب کا عظیم الشان ثبوت ہے، جیسا کہ صوفیائے کرام کا معمول ہے۔ اگر قالب سے گناہ سرزد ہوتے ہیں (مثلاً داڑھی منڈانا، ٹخنے سے نیچے پائجامہ لٹکانا، بدنگاہی کرنا وغیرہ) تو یہ سب قلب کے فساد کی علامت ہے، صلاحِ قالب کے لیے صلاحِ قلب لازمی ہے اور فسادِ قالب کے لیے فسادِ قلب لازمی ہے۔ کما قال الخواجۃ الہندی المجذوب رحمہ اللہ تعالٰی ؎ دل میں اگر حضور ہو سر تیرا خم ضرور ہو جس کا نہ کچھ ظہور ہو عشق وہ عشق ہی نہیںقلبِ سلیم کی تفسیر جب قلب صالح ہوجاتا ہے اس کو ’’قلبِ سلیم‘‘ کہتے ہیں، قلبِ سلیم کی پانچ تفسیریں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہیں اس آیت کے ذیل میں: یَوۡمَ لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ ﴿ۙ۸۸﴾ اِلَّا مَنۡ اَتَی اللہَ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿ؕ۸۹﴾ ؎ اس دن میں کہ نجات کے لیے نہ مال کام آوے نہ اولاد، مگر ہاں اس کی نجات ہوگی جو اللہ کے پاس کفر و شرک سے پاک دل لے کر آوے گا۔ ۱) اَلَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ فِیْ سَبِیْلِ الْبِرِّ۔قلبِ سلیم وہ ہے کہ جو مال خرچ کرے نیک راستے میں۔ ۲) اَلَّذِیْ یُرْشِدُ بَنِیْہِ إِلَی الْحَقِّ۔قلبِ سلیم وہ ہے جو اپنی اولاد کو نیک راستے پر ------------------------------