کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
وَرُوِیَ أَنَّہٗ رُإِیَ مَعَ الْجُنَیْدِ سُبْحَۃً فِیْ یَدِہٖ حَالَ انْتِہَائِہٖ فَسُئِلَ عَنْہُ فَقَالَ: شَیْءٌ وَصَلْنَا بِہٖ إِلَی اللہِ کَیْفَ نَتْرُکُہٗ ؎ ترجمہ و تشریح:ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اصل ہے بزرگوں کے تسبیح رکھنے کی، پس تحقیق کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت بھی جواز کی دلیل ہے خواہ تسبیح کے دانے الگ الگ ہوں یا پرودیےگئے ہوں، اس میں کوئی فرق نہیں، اور یہ قول ناقابلِ توجہ ہے جو تسبیح کو بدعت کہتے ہیں۔ مشایخ نے فرمایا ہے کہ تسبیح شیطان کے لیے کوڑا ہے یعنی غفلت نہیں پیدا ہونے دیتی۔ روایت ہے کہ حضرت جنید کو دیکھا گیا کہ جب وہ کامل ہوگئے، تو ان کے ہاتھ میں تسبیح دیکھی گئی۔ کہا گیا کہ اب کیا ضرورت ہے؟ فرمایا: اسی کی برکت سے تو واصل ہوئے، اس محسنہ کو کیسے چھوڑدوں؟ذکر میں دل لگانے کا طریقہ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی بزرگ سے ان کے مرید نے شکایت کی کہ دل ذکر میں حاضر نہیں رہتا۔ فرمایا کہ اس بات کا شکر کرو کہ ایک عضو (زبان) کو ذکر میں اللہ تعالیٰ نے لگادیا ہے اور دل کی توجہ کی دعا کرتے رہو۔ احقر عرض کرتا ہے کہ شکر پر وعدہ ہے زیادہ عطا فرمانے کا، پس ذکرِ لسانی پر شکر کی برکت سے قلب کی حضوری کی نعمت بھی زیادہ عطا فرمانے کے وعدے کے ساتھ آجاوے گی۔حضرت علی کا ارشاد جو شخص یہ چاہے کہ اس کا ثواب بہت بڑے ترازو میں وزن کیا جاوے، اس کو چاہیے کہ مجلس کے ختم پر یہ آیات پڑھ لیا کرے: ------------------------------