کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
بِعِبَادَتِہٖ تَعَالٰی لَا مَا یَحْصُلُ بِغَیْرِہَا کَمَعْرِفَۃِ الْفَلَاسِفَۃِ ،قَالَ مُجَاہِدٌ :إِنَّ مَعْنٰی لِیَعْبُدُوْنِ لِیَعْرِفُوْنِ؎ حضرت مجاہد تابعی رحمۃ اللہ علیہ مکی جو وقت کے امامِ قرأت اور تفسیر تھے، انہوں نے لِیَعْبُدُوْنِ کی تفسیر لِیَعْرِفُوْنِ سے فرمائی ہے، یہ مجاز مرسل ہے، عبادت سببِ معرفت ہے، مسبب کو سبب کے نام سے تعبیر فرمایا گیا اور اس میں حکمت یہ ہے کہ معرفت وہی معتبر ہے جو عبادت سے حاصل ہو، نہ کہ جیسا فلاسفہ وغیرہ کو زعم ہے کہ شریعت سے بےنیاز ہوکر اپنے طریقوں سے معرفت حاصل کرتے ہیں۔ایذائے خلق کونین ہے جس سے دولتِ کَوْنَین عطا ہوتی ہے جب خلق میں بہت مقبولیت و شہرت ہوجاتی ہے اور ہر طرف سے تعریفی کلمات کانوںمیں پڑتے ہیں، تو سالک کی طبیعت پر اس کے اثرات کچھ نہ کچھ ضرور مضر پڑتے ہیں، جس کو وہ اپنے بزرگوں کی تربیت اور ان کے ارشادات کی روشنی میں بُرا سمجھتا ہے، لیکن طبعاً مغلوبیت رہتی ہے اور آثارِ مضرت دفع نہیں کرپاتا۔ حق تعالیٰ کی طرف سے گاہ گاہ تکوینی طور پر ایسے مقبولین کی حفاظت کے لیے اسباب پیدا کیے جاتے ہیں، جیسا کہ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا میں اشارہ ہے اور یہ’’جعل‘‘ تکوینی ہے تشریعی نہیں یعنی حق تعالیٰ کی رضا اس کے ساتھ متعلق نہیں۔؎ پس اولیائے کرام کے لیے بعض دُشمن پیدا کردیے جاتے ہیں اور وہ ایسی گستاخی اور ایذا رسانی تحریراً یا تقریراً کرتے ہیں کہ سب نفس کا غبار جھڑجاتا ہے۔ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک صاحب نے مجھے خط میں گدھا لکھا ہے۔ پھر فرمایا کہ تلخ دوا کونین کا کام کرتی ہے، جو عجب اور کبر سے سالک کو پاک کرکے نسبت مع اللہ کی دولتِ کَونین عطا کرتی ہے۔ اسی تکوینی تربیت سے تکبر اور ------------------------------