کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
عجب اور خودبینی کا ملیریا اپنے عاشقوں پر نہیں چڑھنے دیتے۔کہاں جائے بندہ گناہ گار تیرا؟ قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللہِ؎ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ میرے گناہ گار بندوں سے فرمادیجیے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ عِبَادِیْ میں یائے متکلم میں عظیم رحمتِ حق کی تجلی پوشیدہ ہے، اپنی طرف نسبت کرکے فرمانا اپنے تعلقِ خاص کا اظہار ہے، جیسے کوئی شفیق باپ کہے اے میرے نالائق لڑکو! بُری عادتوں کے قریب بھی نہ جاؤ اور معافی مانگ لو، اس میرے والی’’یا‘‘ میں کیا لطف ہے، عشاق ہی سمجھ سکتے ہیں۔حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِکا عاشقانہ ترجمہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ کا لغوی ترجمہ تو یہ ہے کہ آؤ نماز کی طرف، لیکن احقر اس کا عاشقانہ ترجمہ یہ کرتا ہے کہ اے ایمان والو! تیاری کرلو وضو وغیرہ کرکے، مالک اپنے غلاموں کو یاد فرمارہے ہیں۔ ہائے اس ترجمہ سے وجد آجاتا ہے! ہمارے اہلِ علم احباب نے بھی اس ترجمہ سے خوب لطف حاصل کیا۔ایک اہم حجابِ سلوک ایک رضائے حق ہے اور ایک ادائیگی حقوق بندگی حق ہے، تو مقصود صرف رضائے حق ہے۔ حق تعالیٰ کے حقوقِ محبت اور بندگی کسی سے ادا نہیں ہوسکتے۔ پس یہ فکر ہر وقت کہ اگر ہم سے فلاں فلاں گناہ نہ ہوتا تو ہم حق تعالیٰ کے بڑے مقرب ہوتے۔ یہ فکر بندے کو حق تعالیٰ سے دور کردیتی ہے، اس فکر میں جاہ عند الخالق کا مرض پوشیدہ ہے، یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقدس اور بڑا متقی بننا چاہتا تھا، طلبِ جاہ جس طرح عندالخلق مذموم ------------------------------