کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
کا جواب دوگے تو یہ اور بھونکے گا۔ کہو اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِمیں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کی شیطان مردود سے یعنی جو اس کا مالک ہے اس کی مدد چاہتا ہوں۔ اس طرف اشارہ ہے اس حدیث کالَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ فَإِنَّ الْعَبْدَ بِحَوْلِہٖ وَقُوَّتِہٖ لَیْسَ لَہٗ قُوَّۃُ الْمُغَالَبَۃِ مَعَ الشَّیْطٰنِ وَمُجَادَلَتِہٖ فَیَجِبُ عَلَیْہِ أَنْ یَّلْتَجِئَ إِلٰی مَوْلَا ہُ وَیَعْتَصِمَ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الَّذِیْ أَوْقَعَہٗ؎ پس تحقیق بندے کو اپنی طاقت سے شیطان پر غلبہ پانے اور اس سے جھگڑنے کی طاقت نہیں دی گئی، اس لیے حکم ہے کہ تم اپنے مولیٰ سے رجوع کرو اور پناہ مانگو حق تعالیٰ کی اس مردود سے۔حضرت یونس کے متعلق آیت کی تفسیری تحقیق از: حضرت حکیم الامّت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ؎ اور مچھلی والے کا تذکرہ کیجیے (حضرت یونس علیہ السلام کے قصے کا) جب وہ اپنی قوم سے جبکہ وہ ایمان نہ لائے خفا ہوکر چل دیے اور ان کی قوم پر سے عذاب ٹلنے کے بعد بھی خود واپس نہ آئے۔ اور اس سفر کے لیے ہمارے حکم کا انتظار نہیں کیا اور انہوں نے اپنے اجتہاد سے یہ سمجھا کہ ہم اس چلے جانے میں ان پر کوئی دارو گیر نہ کریں گے۔ یعنی چوں کہ اس فرار کو انہوں نے اجتہاداً جائز سمجھا، اس لیے انتظار نص اور وحی کا نہ کیا، لیکن چوں کہ اُمیدِ وحی تک وحی کا انتظار انبیاء کے لیے مناسب ہے، اس لیے اس ترک مناسب پر ان کو یہ ابتلا پیش آیا کہ راہ میں ان کو کوئی دریا ملا اور وہاں کشتی پر سوار ہوئے، کشتی چلتے چلتے رُک گئی۔ یونس علیہ السلام سمجھ گئے کہ میرا یہ فرار بلااذن ناپسند ہوا، اس کی وجہ سے یہ کشتی رُکی۔ کشتی والوں سے فرمایا کہ مجھے دریا میں ڈال دو، وہ راضی نہ ہوئے، ------------------------------