کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
سے نجات کو مقدم فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت ہے کہ مستقبل کے خطرات کی زیادہ فکر رہتی ہے تو اس ترتیب میں رعایتِ فطرتِ انسانیہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں جہنم کا بھی ذکر نہیں فرمایا حالاں کہ نعم البدل جنت کا ذکر فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی کبھی ایک لفظ سے بھی گھبرا جاتا ہے باوجود اس کے کہ اُس کو امن کی خوشخبری دی گئی۔ جیسے کہ کوئی میزبان کہے مہمان سے کہ آپ تشریف لائیے، اچھے اچھے کھانے کھلائیں گے اور آپ کی سابقہ خطاؤں پر آپ کی پٹائی نہ کریں گے تو اس عنوان سے وحشت اور کلفت ہوگی، چوں کہ حق تعالیٰ کریم میزبان ہیں اس لیے لَا تَخَافُوْا مِنْ جَہَنَّمَنہیں فرمایا۔ سزا کا ذکر ہی نہیں فرمایا اور جنت سے مسرور فرمایا۔ قرآنِ پاک کی اس بلاغت سے پتا چلتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے: نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ؎ ہم تمہارے رفیق تھے دنیا میں، اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اولیاء کم فی الدنیا یعنی دنیا میں دوستی سے مراد أَعْوَانُکُمْ فِیْ أُمُوْرِکُمْ وَنُلْہِمُکُمُ الْحَقَّ وَنُرْشِدُ کُمْ إِلٰی مَا فِیْہِ خَیْرِکُمْ وَصَلَاحِکُمْہم تمہارے مددگار تھے دنیا میں اور حق کا الہام کرتے تھے اور تمہاری راہ نمائی کرتے تھے ان چیزوں کی طرف جن میں تمہارے لیے خیر اور بھلائی تھی۔ اور اولیاء کم فی الاخرۃ یعنی آخرت میں دوستی سے مراد نُمِدُّکُمْ بِالشَّفَاعَۃِ؎ کہ ہم تمہارے لیے شفاعت کریں گے۔ اور یَدۡخُلُوۡنَ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ کُلِّ بَابٍ... الٰخ؎ یعنی فرشتے ہر دروازے سے داخل ہوجائیں گے اور سلام سلام کہیں گے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ملائکہ مؤمنین کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ جیسے کہ حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر انسان کی حفاظت پر فرشتے مقرر نہ ہوتے تو انسان ختم ہوگیا ہوتا جنات وغیرہ کے شرور سے اور ان کی ایذاء رسانی سے۔ ------------------------------