کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اپنے سالک کو مطلوب تک پہنچاتا ہے۔ پس اس لفظ مختصر میں جمیع شرائع شامل ہیں۔ یعنی امتثالِ اوامر و اجتناب عن المعصیات علیٰ سبیل الدوام و الثبات، یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام کا بجالانا اور معاصی سے پرہیز کرنا دائمی طور پر اور گناہ کے صادر ہونے کے بعد استغفار و توبہ کرنے کا التزام دوام کے خلاف نہیں ہے یعنی خطاؤں کی تلافی کا ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے جب سفیان بن عبداللہ الثقفی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا قُلْ لِّیْ فِی الْاِسْلَامِ قَوْلًا لَا أَسْأَلُ عَنْہُ أَحَدًا بَعْدَکَیعنی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھ کو اسلام کے بارے میں ایک ایسی بات بتا دیجیے کہ کبھی بھی آپ کے بعد کسی سے سوال نہ کروں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہقُلْ اٰمَنْتُ بِاللہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ؎ یعنی کہو کہ میں ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر پھر اس پر مستقیم رہو۔ اس حدیث کے ذیل میں حضرت مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مرقاۃ میں لکھا ہےکہہٰذَا الْحَدِیْثُ مِنْ جَوَامِعِ الْکَلِمِ الشَّامِلِ لِأُصُوْلِ الْاِسْلَامِ الَّتِیْ ہِیَ التَّوْحِیْدُ وَالطَّاعَۃُ یعنی یہ حدیث جوامعِ کلم ہے جو اسلام کے اصول کو مشتمل ہے اور اسلام کے اصول توحید و طاعت ہیں۔ پس اس حدیث میں اعمالِ قلوب اور قوالب دونوں داخل ہیں۔ صوفیا فرماتے ہیں:اَ لْاِسْتِقَامَۃُ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ کَرَامَۃٍ یعنی استقامت ہزار کرامت سے بہتر ہے۔ (مرقاۃ، جلد: ۱، صفحہ: ۸۴) امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اَ لْاِسْتِقَامَۃُ عَلَی الصِّرَاطِ فِی الدُّنْیَا صَعْبٌ کَالْمُرُوْرِ عَلٰی صِرَاطِ جَہَنَّمَ ، وَکُلُّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا أَدَقُّ مِنَ الشَّعْرِ وَأَحَدُّ مِنَ السَّیْفِ؎ یعنی استقامت دنیا میں ایسا مشکل امر ہےجیسے کہ پل صراط پر گزرنا اور یہ دونوں بال سے بھی باریک اور تلوار سے بھی تیز ہیں۔ تو جو بھی اس دنیا میں اس پر چلے گا تو بدرجۂ اولیٰ وہ ------------------------------