کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
کھلا رہے تو اس کو موت معلوم ہوگی اور اس کی حیات خطرے میں ہوگی۔ اسی طرح سرسے پیر تک مؤمن جب ذکر اللہ کے نور میں غرق ہوگا تو حیاتِ حقیقی اور حیاتِ ایمانی اور حیاتِ روحانی سے مشرف ہوگا۔ اگر ایک عضو بھی ذکر سے غافل یا ایک عضو بھی نافرمانی میں مبتلا ہے تو اس کی حیاتِ ایمانی خطرے میں ہوگی۔ صاحبِ تفسیر مظہری اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُکی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بذکراللہمعنیٰ میں فی ذکر اللہ کے ہے یعنی اتنا کثرت سے ذکر کرے کہ ذکر میں غرق ہوجاوے اور کثرتِ ذکر متعدد آیات سے منصوص ہے۔ وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ؎ وغیرہا، اور قلیل ذکر کو منافقین کی علامت قرار دیا گیا۔ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِیْلًا؎ اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہے کہ منافقین کے رجسٹر سے اس کا نام خارج ہوجائے تو وہ کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔اسی لیے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ والے دریائے جلال کی گہرائیوں میں رہنے والی مچھلیاں ہیں ؎ ماہیانِ قعرِ دریائے جلال جو مچھلیاں تھوڑے پانی میں رہتی ہیں وہ گرمیوں میں جب سورج کی شعاعوں سے پانی شدید گرم ہوجاتا ہے تو بے ہوش ہوجاتی ہیں اور لوگ ان کا شکار کرکے کھاجاتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ ذکر کم کرتے ہیں اور ان کا دریائے نور گہرا نہیں ہوتا، ان کو معاشرے کے زہریلے اثرات تباہ کردیتے ہیں۔ اور جو مچھلیاں گہرے پانی میں رہتی ہیں تو آفتاب کی گرمی سے جب اوپر کا پانی گرم ہوجاتا ہے تو دریا کی گہرائی کے ٹھنڈے پانی میں پناہ لے لیتی ہیں۔ یہی حال ان سالکین کا ہے جو کہ قلباً اور قالباً سراپا خدا تعالیٰ پر فدا ہیں۔ ان کے سینہ میں دریائے نور بہت گہرا ہوتا ہے، ہر وقت وہ اس کی ٹھنڈک میں پُرسکون ہیں ؎ ------------------------------