کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہتھوڑے دل پہ ہیں مغزِ دماغ میں کھونٹے بتاؤ عشقِ مجازی کے مزے کیا لوٹے اس عارضی صورت سے دل لگانا سخت حماقت ہے۔ احقر کا اسی مضمون پر یہ شعر ہے ؎ ان کے عارض کو لغت میں دیکھو کہیں مطلب نہ عارضی نکلے چہرے کا جغرافیہ ایک دن بدل جاتا ہے جس کے ساتھ اہلِ محبت کی تاریخ بھی بدل جاتی ہے۔ احقر کا ایک عجیب شعر اس حقیقت کا ترجمان ہے ؎ اُدھر جغرافیہ بدلا اِدھر تاریخ بھی بدلی نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی دوسری تفسیر:اَلنَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ أَیْ الْعَارِفَۃُ الَّتِیْ لَا تَصْبِرُ عَنِ اللہِ تَعَالٰی طَرْفَۃَ عَیْنٍ۔ نفسِ مطمئنہ وہ نفس ہے کہ جس کو حق تعالیٰ کی معرفت کا وہ مقامِ عالی عطا ہو جس سے حق تعالیٰ کے ساتھ ایسی شدید محبت (جو کہ لوازمِ معرفت سے ہے)ہوجاوے کہ بدون ان کی یاد کے ایک پل کو چین نہ آوے۔ ملّا علی قاری رحمۃاللہ علیہ حق تعالیٰ کے عاشقین کی تفسیر اس طرح فرماتے ہیں:اَلَّذِیْنَ لَا لَذَّۃَ لَہُمْ إِلَّا بِذِکْرِہٖ جن کو کائنات میں ذکر اللہ کے بغیر چین حاصل نہ ہو ؎ ترے غم کے سوا ممکن نہیں تھا گزرتے دن مری جان حزیں کے (اخترؔ) کوئی مزہ مزہ نہیں کوئی خوشی خوشی نہیں تیرے بغیر زندگی موت ہے زندگی نہیں (مجذوبؔ)