کشکول معرفت |
س کتاب ک |
شعر (۳) گہہ نماید روضہ قعر چاہ را گہہ چو کابو سے نماید ماہ را خود بینی اور تکبر کی نحوست سے قلب کی بصیرت میں فساد آجاتا ہے جس کی وجہ سے بصارت فاسد ہوجاتی ہے اور حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ اہل اللہ اور مقبولانِ بارگاہ کے چہرۂ انور بدبختوں کو منحوس اور بُرے نظر آتے ہیں اور اہل باطل کے چہرے ان کو محبوب اور منور معلوم ہوتے ہیں۔ اس ابتلا کا سبب اس کے باطن کا کبر اور اعراض ہوتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا قہر انبیاء اور اولیاء کے چاند کے جیسے چہروں کو کابوس (ڈراؤنی شکل) دکھاتا ہے اور کنویں کی تاریکی کو خوشنما باغ دکھاتا ہے ؎ اشقیاء را دیدۂ بینا نبود نیک و بد در دیدہ شاں یکساں نمود بدبخت لوگوں کی چشمِ بصیرت خراب تھی اور ظاہری بصارت باطنی بصارت کے تابع ہے۔ پس فسادِ باطن اور فسادِ قلب کے سبب ان کی آنکھوں میں نیک و بد کی پہچان نہ تھی اور بُروں کو نیک اور نیکوں کو بُرا سمجھنے لگے ؎ ہمسری باانبیاء برداشتند اولیاء را ہمچو خود پنداشتند اپنی شقاوت اور کورِ باطنی اور قلبی فساد یعنی عجب و تکبر کے سبب انبیاء علیہم السلام کی برابری کرنے لگے اور اولیاء اللہ کو حقارت کی نظر سے دیکھا اور ان کو اپنی طرح قیاس کیا۔ جیسا کہ حکایت ہے کہ ایک حبشی نے جنگل میں ایک آئینہ کسی مسافر کا گرا ہوا دیکھا اور اس کے اندر اپنی کالی صورت لانبے لانبے دانت اور موٹے موٹے ہونٹوں کو دیکھ کر آئینہ کو گالی دے کر کہا کہ کمبخت، بدصورت، منحوس ایسی بدشکل تیری ہے۔ جبھی تو جنگل کے ویرانے میں کسی نے پھینک دیا ہے۔ اگر حسین ہوتا تو گھروں میں لوگ تجھ کو آراستہ کرکے رکھتے۔ اس ظالم کو خبر نہ تھی کہ اس آئینہ میں خرابی نہ تھی بلکہ یہ