کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہم مؤمن کے نالہ کو محبوب رکھتے ہیں۔ اس سے کہو کہ وہ آہ و زاری میں مشغول رہے۔ یہی اس کا اعزاز ہے۔یہ تاخیرِ عطاعین یاری ہے نہ کہ اس کی خواری۔ اس غافل بندے کو یہی حاجت میرے پاس لائی ہے اور اس کی پیشانی کے بالوں کو پکڑے ہوئے میری چوکھٹ تک گھسیٹ کر لائی ہے۔ اگر میں اس کی حاجت کو جلد پورا کردوں گا تو پھر یہ غفلت کے لہو و لعب میں غرق ہوجائے گا۔ خوش ہمی آید مرا آوازِ او واں خدایا گفتن وآں رازِ او اس بندے کی گریہ و زاری مجھے بہت بھلی معلوم ہوتی ہے اور اس کا یاخدا کہنا اور اس کا راز و نیاز مجھے بہت پسند آتا ہے۔ طوطی اور بلبل کو اس کی خوش آوازی کے سبب قفس میں بند کرتے ہیں۔ اُلّو اور کوّے کو قفس میں کب بند کیا جاتا ہے؟یہ جہاں مؤمن کے لیے عارضی قیدخانہ ہے اور کافر کے لیے عارضی جنت ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر دعا کی قبولیت میں کبھی تاخیر ہوتو نااُمید نہ ہونا چاہیے۔ اور دعا جاری رکھنا چاہیے کہ اس بہانے سے مؤمن کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف بہت دن تک حاصل رہتا ہے۔ جیسا کہ خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ اُمید نہ برآنا اُمید بر آنا ہے یہ عرضِ مسلسل کا کیا خوب بہانہ ہے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ندامت کے آنسوؤں سے اور استغفار و توبہ کی برکتوں سے بندہ بہت جلد اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص سے نوازا جاتا ہے ؎ نومید ہم مباش کہ رندانِ بادہ نوش ناگہہ بیک خروش بہ منزل رسیدہ اند اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نااُمید نہ ہونا چاہیے کہ گناہ گار اپنے نالوں اور اشکِ ندامت سے ایک ہی پرواز میں قرب کی اس منزل تک پہنچ جاتا ہے کہ زاہدانِ خشک تو کیا اس قربِ