کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:تَہَادَوْا تَحَابُّوْا وَتَصَافَحُوْا یَذْہَبِ الْغِلُّ عَنْکُمْ؎ آپس میں ہدیہ دیا کرو اس سے محبت پیدا ہوتی ہے اور آپس میں مصافحہ کیا کرو یہ عمل تمہارے قلوب سے کینہ اور گرانیِ طبع کو زائل کردے گا۔ فائدہ: جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں آوے اس کو اپنے لیے نعمت سمجھے۔ حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں میرے پاس آتا ہے میں اس کے قدموں کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہدیہ دے اس کو ضرور کھانا چاہیے، اس سے قلب میں نور پیدا ہوتا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ جو آپس میں محبت رکھتے ہیں ’’فِیْ جَلَالِیْ‘‘ یعنی میری عظمت کے سبب۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’جَمَالِیْ‘‘ کا لفظ نہیں فرمایا تاکہ معلوم ہو کہ جس محبت کا اس حدیث میں ذکر ہورہا ہے وہ شا ئبۂ نفس اور خواہشاتِ نفسانی سے بالکلیہ محفوظ اور پاک ہے۔ ورنہ لفظ جمالی سے بعض نادان صوفیا کسی نوجوان صالح کے حسن سے متأثر ہوکر اس سے محبت کرتے اور اس سے محبت پر ان ثمرات کا انتظار کرتے اور احمقانہ تاویل کرتے کہ یہ آئینۂ جمالِ خداوندی ہیں۔ ان کے آئینہ میں ہم جمالِ حق کا مشاہدہ کرتے ہیں اور یہ صریح ضلالت ہے اور گمراہ پیروں کا شیوہ ہے۔ حکایت:ایک صاحب نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ شریعت ہم کو حسینو ں کے دیکھنے سے کیوں منع کرتی ہے؟ ہم تو ان کو آئینۂ جمالِ حق سمجھتے ہیں اور ان حسینوں کے آئینے میں ہم جمالِ خداوندی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ یہ آئینے تو ہیں مگر آتشی آئینے ہیں، جل کر خاک ہوجاؤگے۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ’’بِجَلَالِیْ‘‘کے متعلق یہ ہے بِجَلَا لِیْ أَیْ بِسَبَبِ عَظَمَتِیْ وَلِأَجْلِ تَعْظِیْمِیْ أَوِالَّذِیْنَ یَکُوْنُ التَّحَابُبُ بَیْنَہُمْ لِاَجْلِ ------------------------------