کشکول معرفت |
س کتاب ک |
جو محبت اللہ تعالیٰ کے لیے کسی بندے کی کسی بندے سے ہو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ دونوں اس محبت للّٰہی پر ہمیشہ قائم رہیں اور دنیوی معاملات کی وجہ سے اس محبت کو منقطع نہ کریں۔ یہاں تک کہ موت ہی ان کو جدا کرے۔ ان کے لیے بخاری شریف کی اس حدیث میں قیامت کے دن عرش کا سایہ ملنے کا وعدہ ہے، جس دن کوئی سایہ ہی نہ ہوگا سوائے عرش کے۔ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللہَ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: أَیْنَ الْمُتَحَابُّوْنَ بِجَلَا لِی الْیَوْمَ أُظِلُّہُمْ فِیْ ظِلِّیْ یَوْمَ لَاظِلَّ إِلَّا ظِلِّیْ؎ ترجمہ و شرح ازمرقاۃ:اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے کہ کہاں ہیں وہ بندے جو میرے جلال اور عظمتِ شان کے سبب آپس میں محبت رکھتے تھے (اور جلال کے لفظ سے یہ بات واضح فرمادی کہ یہ محبت نفسانی تعلقات سے بالکل پاک ہوگی) آج میں ان کو عرش کا سایہ عطا کروں گا جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا میرے سایۂ عرش کے علاوہ۔ قَالَ الْمُلَّا عَلِیُّ الْقَارِیُّ رَحِمَہُ اللہُ فِیْ شَرْحِ جَلَا لِیْ مَا قَالَ جَمَالِیْ اَیْ اِنَّہُمْ مُنَزَّہُوْنَ عَنْ شَائِبَۃِ النَّفْسِ وَالْہَوٰی؎ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے جو محبت ہوتی ہے اس کی تین شرط بیان فرمائی ہیں۔ یعنی عرش کا سایہ ملنے کے لیے اس محبت کے لیے یہ شرائط ہیں: ۱) وَالْمُرَادُ أَنَّہُمَا دَامَا عَلَیْہِ، وہ دونوں اس محبت پر قائم رہیں اور دائم رہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑائی کرکے اس کو ضایع نہ کریں۔ ۲) وَلَمْ یَقْطَعَاہَا بِعَارِضٍ دُنْیَوِیٍّ، اور دونوں اس محبت کو دنیا کی حقیر عارض کی بنا پر قطع نہ کریں۔ ------------------------------