کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
چناں چہ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ شعر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا تھا ؎ ہاں مجھے مثل کیمیا خاک میں تو ملائے جا شان میری گھٹائے جا رُتبہ مرا بڑھائے جا نہیں کچھ اور خواہش آپ کے در پر میں لایا ہوں مٹادیجیے مٹادیجیے میں مٹنے ہی کو آیا ہوں ہم خاک نشینوں کو نہ مسند پہ بٹھاؤ یہ عشق کی توہین ہے اعزاز نہیں ہے ۲) دوسری دلیل یہ حدیث ہے: مَا أَحَبَّ عَبْدٌ عَبْدًا لِلہِ اِلَّا أَ کْرَمَ رَبَّہٗ عَزَّ وَ جَلَّ؎ جو بندہ اللہ کے لیے کسی سے محبت کرتا ہے تو دراصل یہ محبت اللہ کے اکرام میں داخل ہے (یعنی اللہ کا خاص بندہ سمجھ کر اس کی عزت و محبت کرنا ایسا ہی ہے گویا کہ اس نے اپنے رب کا اکرام کیا) اور وعدہ ہے جزائے موافق عمل کاجَزَآءً وِّفَاقًا پس اللہ تعالیٰ ایسے بندے کا اکرام اپنی مخلوق کے قلوب میں ڈال دیتے ہیں اور یہ بھی تجربہ ہے کہ جن لوگوں نے بزرگوں کی صحبت سے اپنے کو بے نیاز کیا اور مستغنی رہے تو بقول حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کہ جس نے اپنے کو مستقل بالذات سمجھا وہ مستقل بدذات ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے کو اپنی نظر میں معزز سمجھتے ہیں، تاریخ ان کو فراموش کردیتی ہے کیوں کہ قبول فی الارض کا انعام حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے کسی کے چاہنے سے نہیں ملتا، اور جن کو یہ انعام ملتا ہے وہ اپنے کو بے نام و نشاں رکھنے کے مشتاق ہوتے ہیں۔ ------------------------------