کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ترِے ہاتھ سے زیرِ تعمیر ہوں میں مبارک مجھے میری ویرانیاں ہیں ویرانۂ حیات کی تعمیر کر گئی روئیدادِ زندگی کسی خانہ خراب کی (اخترؔ) حیا آتی ہے تیرے سامنے میں کس طرح آؤں نہ آؤں تو دل مضطر کو لے کر پھر کہاں جاؤں نہ پوچھے سوا نیک کاروں کے گر تو کدھر جائے بندۂ گناہ گار تیرا آہ سے راز چھپایا نہ گیا منہ سے نکلی مرے مضطر ہو کر چشمِ نم سے جو چھلک جاتے ہیں ہیں فلک پر وہی اختر ؔ ہوکر میرا پیام کہہ دیا جاکے مکاں سے لامکاں اے مری آہِ بے نوا تو نے کمال کردیا جو حیا مانعِ استغفار و توبہ ہو وہ مردود و مذموم ہے بعض نادان غالب کے اس شعر پر عمل کرتے ہیں ؎ کعبہ کس منہ سے جاؤگے غالبؔ شرم تم کو مگر نہیں آتی