کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
شرح مَا اَصَرَّ: أَیْ مَا دَامَ عَلَی الْمَعْصِیَۃِ؎ یعنی اصرار نہ کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ گناہ پر قائم نہ رہے۔ مانا فیہ ہے۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا استغفار سے مراد استغفارِ کامل ہے اور استغفارِ کامل بدون عزم علی التقویٰ نہیں ہوتا، اسی لیے قرآنِ پاک میں اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ کے بعدتُوْبُوْۤا اِلَیْہِ بھی ہے۔ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَیہ حال ہے اور معرضِ تعلیل میں ہے یعنی یہ لوگ معاصی پر دوام نہیں کرتے۔ لِأَنَّہُمْ یَعْلَمُوْنَ قُبْحَ فِعْلِہِمْکیوں کہ اپنے معاصی کے انجام کو جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے دنیا اور آخرت دونوں حیات تباہ ہوجاتی ہیں، جس طرح مچھلی پانی سے دور ہوکر ہزاروں نعمتوں کے باوجود موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے دریائے قرب سے جو روح نافرمانی کے سبب دور ہوجاتی ہے وہ ہر وقت پریشان رہتی ہے۔ ہزاروں پری کے باوجود پریشانی نہیں جاتی ؎ نگاہِ اقربا بدلی مزاجِ دوستاں بدلا نظر اک ان کی کیا بدلی کہ کل سارا جہاں بدلا جو تو میرا تو سب میرا فلک میرا زمیں میری اگر اک تو نہیں میرا تو کوئی شے نہیں میری استغفار و توبہ سے سلوک کس طرح طے ہوتا ہے۔ ایک بزرگ کے اس شعر میں ملاحظہ کیجیے ؎ ہم نے طے کیں اس طرح سے منزلیں گر پڑے گر کر اُٹھے اُٹھ کر چلے گر کر جو پڑے رہتے ہیں وہی محرومِ منزل رہتے ہیں ورنہ اُٹھ اُٹھ کر چل پڑنے والے بھی کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ------------------------------