کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہاتھ سے گرگیا یعنی منعم کی یاد کے غلبہ سے نعمتوں کی طرف التفات سے ذہول ہوگیا ؎ تمنا ہے کہ اب ایسی جگہ کوئی کہیں ہوتی اکیلے بیٹھے رہتے یاد ان کی دلنشیں ہوتی ستاروں کو یہ حسرت ہے کہ ہوتے وہ میرے آنسو تمنا کہکشاں کو ہے کہ میری آستیں ہوتی جو صورت گیر حسن و عشق کی دنیا کہیں ہوتی تیرے ضوء کا فلک بنتا میرے ظل کی زمیں ہوتی جو ان کو دیکھ لیتے ہم تو پھر کیا زندہ رہ جاتے نگاہِ اوّلیں اے دل نگاہِ واپسیں ہوتی خدا کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہوکر تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تختِ سلیماں تھا ازل میں سامنے عقل و جنوں دونوں کا ساماں تھا جو میں ہوش و خرد لیتا تو کیا میں کوئی ناداں تھا (کشکولِ مجذوبؔ) معیت گر نہ ہو تیری تو گھبراؤں گلستاں میں رہے تو ساتھ تو صحراء میں گلشن کا مزہ پاؤں (عرفانِ محبت) تمہاری یاد کی لذت پہ یہ دونوں جہاں قرباں تری مانند تیرے نام کی لذت ہے لاثانی ہر وادیِ ویراں میں گلستاں نظر آیا قرباں میں ترے نام کی لذت پہ خدایا (اخترؔ)