کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وعظ میں اس شعر سے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے ؎ خشتگاں را چو طلب باشد و ہمت نہ بود گر تو بیداد کنی شرطِ مروت نہ بود پس جب طالب پر سخت اندازِ تربیتبجائے مفید ہونے کے مضر محسوس ہو تو معالج کو اندازِ نرم اختیار کرنا چاہیےکیوں کہ استفادہ اور استفاضہ کے لیے طبعی موانست ضروری ہے جو مرشد کی شفقت اور رحمت سے پیدا ہوتی ہے۔ اہلِ محبت اس کی قدر جانتے ہیں کہ ہر ادائے محبت و شفقت پر دل و جان سے عاشق ہر نَفَس فدا ہوتا رہتا ہے۔ مقدر سے ملی جس کو محبت کی فراوانی اسی کے ہاتھ سے ہوتی ہے روشن شمعِ ایمانی اَلْہِدَایَۃُ الْحَاصِلَۃُ مِنْ ہٰذَا الشِّعْرِ: جس کے قلب پر اللہ تعالیٰ کی محبت غالب ہوجاتی ہے تو اس کی محبت کی فراوانی ہر جگہ نظر آتی ہے۔ عبادات و ذکر کی حلاوت میں، احباب کی تربیت میں اور علیٰ رؤس المنابر اس کی محبت کا جھنڈا لہرا جاتا ہے۔ ولنعم ما قال جغر ؎ میرا کمالِ عشق بس اتنا ہے اے جگر ؔ وہ مجھ پہ چھاگئے میں زمانے پہ چھاگیا صنمارہ قلندر سزدار بمن نمائی کہ دراز و دور دیدم رہ و رسم پارسائی یعنی طرزِ محبت سے افنائے نفسِ تام جلد نصیب ہوتا ہے۔ قال العارف الرومی رحمہ اللہ ؎ عشق ساید کوہ را مانند ریگ عشق جوشد بحر را مانند دیگ