کشکول معرفت |
س کتاب ک |
ہاں وہ نہیں وفا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو ہو جان و دل عزیز اس گلی میں جائے کیوں طالب کو اپنے مرشد کے ہر ناز کو اُٹھانے کا حوصلہ ہونا چاہیے کہ یہ ناز برداری مرشد کی راہِ حق کی ناز برداری ہے۔ البتہ ضعفِ قلب اور ضعفِ طبع سے اگر طالب سے تحمل نہ ہوسکے اور یہ سبب بن جائے عدمِ موانست کا اور توحش عن المصاحبت والمجالست کا تو اپنے ضعفِ طبعی سے مرشد کو آگاہ کرکے درخواست رحم کی پیش کردے۔ اہل اللہ تو سراپا کرم اور سراپا رحمت ہوتے ہیں۔ پھر وہ ایسے طالب کی ضعفِ طبع اور ضعفِ قلب کی رعایت فرمائیں گے اور اندازِ تربیت نرم کردیں گے۔ سرجھکادیں شوق سے حق کی اطاعت کے لیے اور کیا شے ہے اسی کا نام تو اسلام ہے اَلْہِدَایَۃُ الْحَاصِلَۃُ مِنْ ہٰذَا الشِّعْرِ: اصلاحِ باطن کے لیے اور عجب و کبر اور خودبینی کے اثراتِ ردّیہ اور رذیلہ کو مٹانے کے لیے اگر مرشد دوائے تلخ تجویز کرے تو عجب و کبر کے ملیریا کے لیے اس دوا کو کونین سمجھ کر نگل جائے اور معالج سے حسنِ ظن اور کامل اعتماد رکھے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کونین کی برکت سے جب عجب و کبر کے حجابات رفع ہوں گے تو نسبت مع اللہ کا چاند پہلو میں جلوہ گر ہوگا اور اس کونین کی بدولت دولتِ کونین عطا ہوجاوے گی ؎ میں جور میں بھی لطفِ نہاں دیکھ رہا ہوں خوش ہو کے تیرے تیر و سناں دیکھ رہا ہوں اَلْہِدَایَۃُ الْحَاصِلَۃُ مِنْ ہٰذَا الشِّعْرِ: طالب کو اپنے محسن، مربّی و کریم مرشد کی تنبیہات اور زجر و تغیّر مزاجی کو ناگوار ہونے کے بجائے اس کے اندر لطف و کرم پوشیدہ سمجھنا چاہیے کہ منشا مرشد کا اس سے تزکیۂ نفس اور اصلاحِ اخلاق ہے۔ البتہ مربّی اور معلم کو اپنی شانِ تربیت اور شانِ تعلیم پر شانِ رحمت کو غالب رکھنا چاہیے تاکہ طبائعِ ضعیفہ بھی تربیت اور تعلیم سے محروم نہ ہوں۔