کشکول معرفت |
س کتاب ک |
اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُّبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ؎ اے اللہ! میں سوال کرتا ہوں آپ کی محبت کا اور آپ سے محبت کرنے والوں کی محبت کا اور ان اعمال کی محبت کا جو آپ کی محبت تک رسائی کا وسیلہ ہو۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کائنات میں محبتِ الٰہیہ کے لیے اور اعمالِ صالحہ کی محبت اور توفیق کے لیے اہل اللہ کی محبت سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں اور اسی حدیثِ مذکور سے استدلال فرمایا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محبتِ حق اور محبتِ اعمالِ صالحہ کے درمیان محبتِ اہل اللہ کی مطلوبیت رکھی ہے جس میں اشارہ موجود ہے کہ یہ دولت یعنی محبتِ اہل اللہ محبتِ حق اور محبتِ اعمالِ صالحہ کا وسیلہ ہے اور اس کا تعلق دونوں سے مربوط ہے۔ صوفیائے کرام اسی لیے طالبین پر شفقت و محبت سے متوجہ رہتے ہیں کہ ان کے قلوب میں مربّی کی محبت پیدا ہوجاوے اور ان کی اصلاحِ حال اور ترقیات میں یہ محبت ذریعۂ تکمیل بن جائے ؎ کیف میں تو نے ڈوب کر چھیڑی جو داستانِ عشق قابو رہا نہ ضبط پر رونے لگا میں داد میں اَلْہِدَایَۃُ الْحَاصِلَۃُ مِنْ ہٰذَا الشِّعْرِ: اس شعر میں یہ ہدایت ہے کہ دعوت الی اللہ کے وقت حق تعالیٰ شانہٗ کی محبت کا غلبہ رہے تاکہ حق تعالیٰ کا راستہ محبوب اور لذیذ معلوم ہو اور قلوب بآسانی اس دعوت کو مشتاقانہ قبول کرلیں۔ اسلوب تعبیراتِ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ احکام کی مقدار پورے قرآن میں اگر جمع کیا جاوے تو تقریباً ایک پارے میں جمع ہوجاوے گی یا اس سے بھی کم میں۔ لیکن قصصِ انبیاء اور دلائلِ معرفت اور ذکر انعاماتِ الٰہیہ موجبہ محبتِ محسن سے تمام قرآن مملو ہے۔ اور اکابر کے مواعظ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ احکام قلیل لیکن محبت اور معرفت کے مضامین کی کثرت رہتی ہے جو بِالْمَوْعِظَۃِ وَالْحِکْمَۃِ کا عین مقتضا ہے۔ ------------------------------