کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
تیرے غم کی جو مجھ کو دولت ملے غمِ دو جہاں سے فراغت ملے (سید سلیمانؔ ندوی رحمۃ اللہ علیہ) زندگی پُرکیف پائی گرچہ دل پُرغم رہا اُن کے غم کے فیض سے میں غم میں بھی بے غم رہا (اخترؔ) اگر عالم سراسر خار باشد دلِ عاشق گل و گلزار باشد (رومیؔ رحمۃ اللہ علیہ، دیوانِ شمس تبریز) وہ گرمیٔ ہجراں وہ تیری یاد کی خنکی جیسے کہ کہیں دھوپ میں سایہ نظر آئے ایک ہی بات میں نظر آتی ہیں باتیں سینکڑوں پڑگئی جان عشق کے فیض سے اجتہاد میں اَلْہِدَایَۃُ الْحَاصِلَۃُ مِنْ ہٰذَا الشِّعْرِ: اہلِ محبت جب شرحِ محبت کرتے ہیں تو ایک بات میں فیضانِ محبت سے سینکڑوں علوم وارد ہوتے ہیں۔ جو چپ بیٹھوں تو اک کوہِ گراں معلوم ہوتا ہوں جو لب کھولوں تو دریائے رواں معلوم ہوتا ہوں (مجذوبؔ) سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق تا بگویم شرح از دردِ اشتیاق عقل درشرحش چو خرد رگل بخفت شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت