کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
چوں کہ محبت سے اتباع کی تسہیل بلکہ تلذیذ ہوتی ہے اور قلبِ عاشق محبت کے ذریعے محبوب مرشد کے باطنی اخلاق کو بھی جذب کرلیتا ہے کَمَا قَالَ الْاِمَامُ الْغَزَالِیُّ رَحِمَہُ اللہُ:فَإِنَّ الطِّبَاعَ تَسْرِقُ الْأَخْلَاقَ مِنْ طِبَاعٍ أُخْرٰیاس لیے ساقی پہلے اپنے کرم سے طالبین کو مئے محبت سے مخمور کرتے ہیں اور جس کی برکت سے اس کا ہر ستم بھی جانِ کرم محسوس ہوتا ہے اور اس نوع کا احساسِ محبت مرشد ہی کا ثمرہ ہوتا ہے۔ لذتِ دیدِ ہجر میں عشق کی یہ کرامتیں میں نے خزاں میں بھی بہار دیکھ لی تیری یاد میں اَلْہِدَایَۃُ الْحَاصِلَۃُ مِنْ ہٰذَا الشِّعْرِ: حالتِ فراق میں رضائے محبوب کے اعمال اور ذکرِ محبوب لذتِ قرب و وصال کا ذریعہ ہے ؎ اُذْکُرُوا اللہ شاہِ ما دستور داد اندر آتش دید و مارا نور داد (رومی رحمۃاللہ علیہ) اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کو عاشقوں کے لیے دستور بنادیا۔ پس جدائی اور فراق کے غم اور آگ کو نورِ گلزار بنادیا ؎ جس فلک نے مجھ کو محرومِ گلستاں کردیا اشک ہائے خوں نے مجھ کو گل بداماں کردیا (مجذوبؔ رحمۃ اللہ علیہ) اللہ تعالیٰ جس کو توفیقِ ذکر عطا فرمادیں تو وہ حالتِ خزاں میں بھی بہار کا لطف پاتا ہے کیوں کہ خالقِ بہار سے رابطہ رکھنے والا مخلوق بہار کا محتاج نہیں رہتا ؎ خوشا حوادثِ پیہم خوشا یہ اشکِ رواں جو غم کے ساتھ ہو تم بھی تو غم کا کیا غم ہے (اصغرؔ گونڈوی رحمۃ اللہ علیہ)