کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ساقی کے کرم سے جو ہے مخمور محبت ہر ایک ستم اس کے لیے جانِ کرم ہے اَلْہِدَایَۃُ الْحَاصِلَۃُ مِنْ ہٰذَا الشِّعْرِ: اس شعر کے اندر یہ ہدایت نظر آتی ہے کہ مرشد کی جانب سے اصلاح کے لیے جو عنوان کبھی بضرورت سخت اور تلخ اور درشت اختیار کیا جاتا ہے وہ مفید اور مناسب سمجھ کر کیا جاتا ہے اور عقل کو غالب رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ کسی نادان کو نادانی سے غلبۂ طبع کا واہمہ بھی نہ ہونا چاہیے اور مرشد کے ہر معاملہ کونیک محمل پر حمل کرنا چاہیے کہ وہ جسمانی باپ سے بھی زیادہ شفیق و مہربان ہوتا ہے۔ جسمانی باپ کا تو جسمانی تربیت کا احسان ہوتا ہے جس کا ثمرہ حیاتِ دنیویہ پر مرتب ہوتا ہے اور روحانی مربّی کا ثمرہ دنیا اور آخرت کی دائمی حیات دونوں جگہ مرتب ہوتا ہے۔ اسی سبب سے مربّی روحانی کے لیے طالب کو دعاگو بھی رہنا چاہیے۔ جیسا کہ بیان القرآن کے حاشیہ میں رَبِّ ارْحَمْہُمَا (الآیۃ) کے ذیل میں حضرت اقدس تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی آیت سے مرشدین کے لیے طالبین کو دعائے رحمت کرنے کی ہدایت کا استنباط فرمایا ہے۔ پس ہر ستم صوری مرشد کی طرف سے صدہا کرم معنوی کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن جو محبت میں خام ہوتا ہے وہ گھبرا جاتا ہے اور اُنس کے بجائے وحشت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایسے خام اور نادان لوگوں کی موانست اور تکمیلِ ہدایت کی خاطر اہل اللہ شَفَقَۃً وَرَحْمَۃً وَحِرْصًا عَلَی الْاُمَّۃِ نزول فرماتے ہیں۔ یعنی جب اہل اللہ اپنے کرم عمیم اور پر توِ خلق عظیم سے ان خام کاروں اور نادانوں کا ضعفِ تحمل بھانپ لیتے ہیں تو پھر ایسے لوگوں کی تربیت میں نرم انداز اختیار فرماتے ہیں ؎ وہ ان کا رفتہ رفتہ بندۂ بے دام ہوتا ہے محبت کے اسیروں کا یہی انجام ہوتا ہے وقال الرومی رحمہ اللہ ؎ مہر پا کاں درمیانِ جاں نشاں دل مدہ الّا بہ مہرِ دل خوشاں