کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
نعرۂ مستانہ کے ساتھ ہر ادائے محبوب پر فدا رہے کہ اس لذتِ تسلیم میں جنت کی بہاریں پوشیدہ ہیں ؎ اس خنجرِ تسلیم سے یہ جانِ حزیں بھی ہر لحظۂ شہادت کے مزے لوٹ رہی ہے صدمہ سے میری آنکھیں آنسو بہارہی ہیں دل ہے کہ ان کی خاطر تسلیمِ سر کیے ہے (اخترؔؔ) اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ایسی محبت عطا فرماویں۔ آمین۔ محض عقل کی محبت سے اس کیفیت کا حصول عادتاً مشکل ہے۔ طبعی محبت کی الحاح کے ساتھ دعا کرنی چاہیے ؎ محبت محبت تو کہتے ہیں لیکن محبت نہیں جس میں شدت نہیں ہے (حضرت پرتاب گڑھی) جس کی نگہ شوق اسے ڈھونڈ رہی ہے احساس میں اس کے نہ کرم ہے نہ ستم ہے اَلْہِدَایَۃُ الْحَاصِلَۃُ مِنْ ہٰذَا الشِّعْرِ: جس طالب کی نظر محبوب کی رضا پر ہوتی ہے اس کے سامنے کرم و ستم کے دونوں رُخ کالعدم ہوتے ہیں ؎ فراق و وصل چہ باشد رضائے دوست طلب کہ حیف باشد ازو غیر او تمنّائے پس طالبِ رضائے حق کو تسلیم و تفویض کی راہ سے گزرنا چاہیے ؎ بے کیفی میں بھی ہم نے تو اک کیفِ مسلسل دیکھا ہے جس حال میں بھی وہ رکھتے ہیں اس حال کو اکمل دیکھا ہے