کشکول معرفت |
س کتاب ک |
۸۵) فرمایا کہ جب تک پوری مناسبت نہ ہوجاوے بیعت نہ کرنا چاہیے۔ جب پوری طرح راہ پر پڑجائے تب چاہیے۔ مرید ہونے کے بعد پھر بے فکر ہوجاتے ہیں اور مرید ہونے کے لالچ میں تو کسی قدر اپنی اصلاح کی فکر میں مشغول بھی رہتے ہیں تاکہ جلد مقصود حاصل ہوجاوے۔ یہ اکثری ہے۔ اور شیخ مبصر بعض مواقع کو اس سے مستثنیٰ بھی کرسکتا ہے۔ ۸۶) فرمایا کہ الحمدللہ! میں نے اپنے بزرگوں کے ساتھ کبھی ظاہراً یا باطناً اختلاف نہیں کیا اور ہر طرح ادب ملحوظ رکھا حالاں کہ مجھ کو سینکڑوں احتمالات سوجھتے تھے۔ لیکن میں نے ہمیشہ یہی سوچا کہ ہم کیا جانیں، اور اگر کبھی کوئی بات سمجھ میں نہ بھی آئی تب بھی دل کو یہ کہہ کر سمجھالیا کہ یہ کیا ضرور ہے کہ کوئی بات بھی بلا سمجھے نہ رہے؟ سو واقعی طالبِ تحقیق کو پیشتر تقلید ضروری ہے۔ بعد کو بہ برکت تقلید کے تحقیق کا درجہ بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ ترتیب یہی ہے۔ دیکھیے اگر کوئی بچہ اپنے استاد کی تقلید نہ کرے اور پڑھاتے وقت یہ کہے کہ کیا دلیل ہے کہ یہ الف ہے ب نہیں تو بس پڑھ چکا۔ ۸۷) فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اگر کوئی ذکر و شغل کا نفع ظاہر کرتا تو فرماتے کہ بھائی استعداد تو تمہارے اندر خود موجود تھی میرے ذریعے سے صرف ظاہر ہوگئی ہے، لیکن تم ایسا مت سمجھنا، تم یہی سمجھنا کہ مجھ سے تم کو یہ نفع پہنچا ہے ورنہ تمہارے لیے مضر ہوگا۔یہ شان اہلِ مقام ہی کی ہوتی ہے کہ ہر پہلو پر نظر رہے ورنہ اہلِ حال ایک ہی بات کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ دوسرے پہلو پر ان کی نظر نہیں جاتی۔ ۸۸) ایک صاحب نے سوال کیا کہ اگر کوئی مرشد کو بُرا بھلا کہے تو اس وقت کیا کرنا چاہیے؟ فرمایا کہ اس کو روک دے کہ میرے سامنے ایسا تذکرہ مت کرو، مجھ کو صدمہ ہوتا ہے۔ پھر اس کی ہمت ان شاء اللہ نہ ہوگی، اور اگر صبر نہ ہوسکے اور پوری قدرت ہو اور کسی مفسدہ کا اندیشہ نہ ہو تو اس وقت بحفظ حدشرعی جوتے سے ٹھیک کردے۔ اگر قدرت نہ ہو اور وہ روکنے سے نہ رُکے تو وہاں سے چلاجاوے