کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
۸۱) فرمایا کہ میں نے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ ایک بزرگ مشغول بحق بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کتّا سامنے سے گزرا۔ اتفاقاً اس پر نظر پڑگئی۔ ان بزرگ کی یہ کرامت ظاہر ہوئی کہ اس نگاہ کا اس کتّے پر اتنا اثر پڑا کہ جہاں وہ جاتا تھا اور کتّے اس کے پیچھے پیچھے ہولیتے تھے اور جہاں بیٹھتا تھا سارے کتّے حلقہ باندھ کر اس کے اردگرد بیٹھ جاتے تھے۔ ہنس کر فرمایا کہ وہ گویا کتوں کے لیے شیخ بن گیا۔ پھر فرمایا کہ جن کے فیوض جانوروں پر ہوں ان سے انسان کیسے محروم ہوسکتا ہے؟ ہر گز مایوس نہ ہونا چاہیے۔ ہاں! دھن ہونی چاہیے چاہے تھوڑی ہی ہو۔ ۸۲) فرمایا کہ نفع میں بیعت کو ذرا دخل نہیں۔ باقی کامیابی یہ حق تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جیسا کہ طبیب صرف نسخہ تجویز کرسکتا ہے اس کا استعمال مریض کے اختیار میں ہے اور صحت دینا حق تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ طبیب صحت کی میعاد معین نہیں کرسکتا۔ البتہ اس طریق باطن میں اتنی اُمید ضرور دلائی جاسکتی ہے کہ مرض ظاہری میں تو کبھی مایوسی تک نوبت پہنچ جاتی ہے، لیکن یہاں مایوسی ہر گز نہیں۔ صحت یقینی ہے خواہ مرتے وقت ہی نصیب ہوجاوے۔ ویسے حق تعالیٰ کا فضل ہے جلدی ہوجاوے۔ باقی اپنی طرف سے اس بات پر آمادہ رہنا چاہیے کہ اگر مرتے وقت تک بھی کامیابی ہوجاوے تب بھی راضی ہیں۔ ۸۳) فرمایا کہ طالب سے انکسار کرنا یہ خداع ہے ناجائز ہے۔ اگر کوئی شخص سودا خریدنے جاوے اور ہر دوکاندار کہہ دے کہ میرے یہاں نہیں ہے۔ تو وہ بے چارہ یوں ہی رہا۔ ہاں! غیرطالب سے قسم کھاکر بھی کہہ دے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں، اس میں کچھ حرج نہیں۔ ۸۴) فرمایا کہ مرید کرنے کو میں نفع نہیں سمجھتا۔ اصل نفع حق بات کا کانوں میں پہنچادینا ہے۔ مرید کرنا اپنے ذمہ واجب نہیں سمجھتا۔ ہاں! تعلیم کرنا ہر مسلمان کا حق ہے اور گو یہ کہنا ہے تو بڑی بات لیکن تحدثاً بالنعمۃ کہتا ہوں کہ الحمدللہ! میں ایک ہی جلسہ میں خدا تک پہنچادیتا ہوں۔ راستۂ مقصود بتلادینا خدا ہی سے ملا دینا ہے۔