کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اور اس آیت سے ثابت ہے، ارشاد ہے کہ وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَاُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہ.. الخ؎ اور اس آیت کا حکم عدم قدرت کے زمانہ میں تھا، پھر زمانۂ قدرت میں دوسرا قانون ہوگیا۔ یعنی ضرب یضرب مگر اس وقت کے حالات کے مناسب یہی ہے کہ اس کو یہ اطلاع کرکے چلا جاوے کہ میں اس وجہ سے تمہارے پاس نہیں بیٹھتا کہ تم میرے پیر کو بُرا کہتے ہو۔ لڑے بھڑے نہیں۔ اس برتاؤ سے پیر کی بھی قدر ہوگی کہ پیر کی کیا پاکیزہ تعلیم ہے۔ بس وہاں ہی چلو جہاں انہوں نے تعلیم پائی ہے کہ کیسا صبر و تحمل ان میں آگیا ہے؟ اس کو کرکے دیکھیے کہ کیا اثر ہوتا ہے؟ ۸۹) فرمایا بیعت میں جلدی اچھی نہیں، جب خوب محبت ہوجاوے پیر سے اس وقت بیعت زیادہ نافع ہے۔ اس کی ایک مثال ہے اور ہے تو فحش مگر بیان کیے دیتا ہوں۔ ایک تو ہے نکاح کرنے کے بعد بیوی پر عاشق ہونا کہ ماں باپ نے نکاح کردیا، اس کے بعد محبت ہوجاتی ہے اور ایک ہے عاشق ہوکر نکاح کرنا۔ دونوں صورتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ جیسی قدر دوسری صورت میں ہوتی ہے پہلی صورت میں عشر عشیر بھی نہیں کیوں کہ دوسری صورت میں مدتوں پیچھے پھر کر تکالیف اُٹھاکر نکاح ہوگا۔ تو وہ شخص جیسی بیوی کی قدر کرے گا پہلی صورت والا نہیں کرسکتا۔ اسی طرح بیعت بھی ہے، ایک تو وہ شخص ہو کہ آتے ہی بیعت ہوجاوے اور ایک وہ کہ عاشق ہوکر بیعت ہو، پوری قدر اس کو ہوگی بیعت کی۔ ۹۰) فرمایا کہ بیعت کوئی معمولی چیز نہیں۔ اسلم طریق یہ ہے کہ جس سے بیعت ہونا چاہے ایک تو کچھ مدت تک اس کو جانچے۔ جس کے دو طریق ہیں: ایک مصاحبتِ طویلہ یعنی مدتِ کافیہ تک اس کے پاس رہے اور یہ اَحوط ہے۔ دوسرا طریق مکاتبتِ طویلہ یعنی اس سے کچھ طریق پوچھ کر اس پر عمل کرے۔ پھر اپنے احوال سے اس ------------------------------