کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
اس طریقِ متعارف کے خلاف ہوں کیوں کہ جس کے سامنے سے تبرک سمجھ کر کھاناکھالیا اگر وہ متکبر ہے تو اس کا تکبر بڑھتا ہے اور اگر متواضع ہو تو اس کو اذیت ہوتی ہے بلکہ یوں کیا جائے کہ جب کھانا اُٹھ جائے تو مالک سے مانگ لے، سامنے سے لے کر کھانا چاٹنا ٹھیک نہیں۔ ۷۷) اپنے ایک عزیز کے خط کے جواب میں تحریر فرمایا کہ جو جوابات تم نے لکھے ہیں اگر وہ تمہارے نزدیک شرح صدر کے ساتھ تمہارے اس معاملہ کی صفائی کے لیے کافی ہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہے تو کسی کی خوشی ناخوشی کی پروا نہ کرو کیوں کہ اصل دیانت ہے اور ہر معاملہ کی انتہا حق تعالیٰ پر ہوتی ہے۔ جب حق تعالیٰ سے صفائی ہے تو اور کسی کی پروا نہیں۔ میں تو کیا چیز ہوں، میری خوشی ناخوشی کا تم پر کیا اثر پڑسکتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر کسی کا معاملہ فِیْمَا بَیْنَہٗ وَبَیْنَ اللہ صاف ہو اور اس کا شیخ جس سے وہ بیعت ہے وہ بھی ناراض ہو تو بھی پروا نہ کرنا چاہیے اور اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا،کیوں کہ شیخ معبود نہیں ہے بلکہ واسطہ الی المعبود ہے اور معاملہ عبد کا معبود کے ساتھ ہے۔ ۷۸) فرمایا کہ کام میں لگا رہے اور حالات سے اطلاع دیتا رہے۔ ان شاء اللہ! کامیابی یقینی ہے، اس راہ میں حرمان ہر گز ہر گز نہیں ہوتا۔ ۷۹) فرمایا کہ طالب کی نیت تو راہ بر بننے کی بھی نہیں ہونی چاہیے بلکہ یہ نیت ہو کہ ہمیں راستہ نظر آجاوے، اور راہ بر بننے کی نیت شرک فی الطریقت ہے، بلکہ بزرگ بننے کی نیت بھی نہ ہونی چاہیے۔ اگر یہ نیت ہے تو وہ شخص غیرحق کا طالب ہے، خود کچھ تجویز نہ کرے۔ ۸۰) فرمایا کہ کتابوں سے بھی ثابت ہے اور تجربہ سے بھی ثابت ہے کہ نفس کو جب تک ذلت نہ دی جائے یہ سیدھا نہیں ہوتا اور یہ ظاہر ہے کہ اپنے ہاتھ سے ذلت نہیں ہوتی۔ بازار میں کھڑے ہوکر اپنے ہاتھ سے اپنے سر پر جوتیاں بھی مارلیں تب بھی ذلت نہ ہو۔ ذلت تو جناب دوسرے ہی کے ہاتھ سے ہوتی ہے۔