کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
درجہ مناسبت ہے اور مناسبت بھی بے ساختگی اور پختگی کے ساتھ۔ یوں دو چار دن کو تو سب بن سکتے ہیں۔ ۶۹) فرمایا کہ آج کل ایک مرض یہ بھی ہے کہ مرید ہونے کے لیے لوگوں کو اپنے بزرگ کے پاس لاتے ہیں اور سفارش کرتے ہیں۔ اس سے تو مجھے ایسی چڑ ہے کہ ذرا بھی معلوم ہوجاوے کہ کسی کا لایا ہوا ہے تو اسے مرید کرتا ہی نہیں تاکہ وہ ان ترغیب دینے والوں کو گالیاں دے اور پھر انہیں سفارش کرنے کا حوصلہ نہ رہے۔ جناب طلب وہ چیز ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی کی سفارش کی ضرورت ہی نہیں۔ دوسرے یہ بات ہے کہ جو سفارش کے ذریعے سے بیعت ہونا چاہتا ہے تو اس کا ایہام ہوتا ہے گو یہ نیت نہ ہو، لیکن اس کی صورت اس کی ہوتی ہے کہ اس کو نیازمندی سے عار ہے۔ ۷۰) فرمایا کہ جب تک طریق کی حقیقت نہ معلوم ہوجاوے تب تک تو صحبتِ شیخ ضروری ہے۔ جب اس کی حقیقت معلوم ہوگئی اور طریق سے مناسبت پیدا ہوگئی، پھر صحبت ضروری نہیں۔ ۷۱) فرمایا کہ کام میں لگنا چاہیے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ کیفیات بھی ہیں یا نہیں، حظوظ و لذائذ بھی ہیں یا نہیں اور نہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کچھ ہوا یا نہیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیے کہ جیسے رات کو پسنہاری آٹا پیستی ہے، مگر اس پیسنے والی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آٹا چکی سے گر رہا ہے یا نہیں اور نہ یہ خبر ہوتی ہے کہ کس قدر جمع ہوگیا۔ پیسنے ہی کی دھن لگی رہتی ہے۔ صبح کو جب دیکھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام چکی کے گرد آٹا جمع ہے۔ اگر رات بھر یہ کرتی کہ ایک چکر چکی کا گھماکر آٹے کو ٹٹولا کرتی تو پاؤ بھر بھی آٹا نہ پیس سکتی۔ علاوہ اس کے اپنے کو جس کے سپرد کیا ہے اس پر بغیر اعتماد اور انقیاد و اعتقاد کے کام نہیں چل سکتا۔ جب جاننے والا یہ کہہ رہا ہو کہ کام ہورہا ہے بس اطمینان کرنا چاہیے۔ ۷۲) فرمایا کہ حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ