کشکول معرفت |
س کتاب ک |
۶۱) فرمایا کہ بیعت ضروری نہیں۔ ضروری چیز تعلیم ہے اور ملقن کے ساتھ اعتقاد، کیوں کہ اگر اعتقاد ہو تو چاہے وہ خود کسی قابل نہ ہو لیکن اس کا (یعنی تعلیم حاصل کرنے والے کا) کام بن جاتا ہے۔ بشرطیکہ صحیح سلسلہ ہو۔ اگر صحیح سلسلہ نہ ہو تو نرے اعتقاد سے کچھ نہیں ہوتا۔ صحیح سلسلہ ہونے کی صورت میں چوں کہ سلسلہ دور تک متعدی ہوتا ہے، اس کے واسطے سے بزرگوں کا فیض پہنچ جاتا ہے۔ ایک بار فرمایا کہ صحیح سلسلہ کا اثر ایسا ہی ہوتا ہے جیسے نسب کے صحیح سلسلہ ہونے کا۔ ۶۲) فرمایا کہ ایک پیر صاحب پر ان کے مرید کا سایہ پڑگیا تو نہایت ہی خفا ہوئے اور جرمانہ کیا (یعنی اس کو خلافِ تعظیم و توقیر سمجھا) بس میرا تو اس باب میں یہ مسلک ہے کہ محبت کے متعلق جو آداب ہیں وہ تو ضروری، ان کے تو دقائق کی بھی رعایت چاہیے۔ باقی تعظیم و تکریم کے متعلق جو آداب ہیں وہ سب بے کار۔ چناںچہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم محبت کے آداب کا بہت لحاظ رکھتے تھے، تکریم و تعظیم کا ان کو اہتمام نہ تھا۔ ۶۳) ایک صاحب نے استفسار کیا کہ محبت کے آداب کیا ہیں؟ فرمایا کہ جب محبت ہوگی خودبخود آداب معلوم ہوجائیں گے۔ جیسے لڑکا جب بالغ ہوتا ہے خودبخود اس کو شہوت ہونے لگتی ہے۔ نابالغ بچے کو کسی طرح سمجھایا جاوے کہ جماع اس طرح پر ہوتاہے۔ محبت پید اکرلے، پھر خودبخود آداب قلب میں آنے لگیں گے۔ محبت کے آداب کی کوئی فہرست تھوڑا ہی تیار ہوسکتی ہے۔ اور تکلف کے ساتھ محبت بھی نہ کرے۔ اگر کھینچ تان کر اور آداب کی فہرست معلوم کرکے محبت بھی کی تو اس سے کیا ہوتا ہے؟ جتنی محبت ہو بس اتنا ہی ظاہر کرے، تکلف اور تصنع نہ کرے یہ تو خواہ مخواہ شیخ کو دھوکا دینا ہے۔ ۶۴) فرمایا کہ میں نے بزرگوں کے پاؤں کبھی نہیں دابے، نہ کبھی اس کا جوش اُٹھا۔ ایسی حالت میں اگر کبھی دابتا تو تصنع سے ہوتا ہے۔ جب جی میں نہیں تھا نہیں کیا کہ کون بناوٹ کرے۔ بزرگوں سے بہت سے لوگ تو اس کو ذریعۂ تقرب سمجھتے ہیں۔ البتہ جب جوش ہو تو مضایقہ نہیں۔ اور صاحب کیا بزرگوں کو معلوم نہیں ہوجاتا۔ جوش