کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
لوگوں کے نزدیک اس کی نسبتِ اویسیہ قطع ہوجاوے گی۔ اس کو سُبکی ہونے کا خیال ہوگا۔ پھر فرمایا کہ نسبتِ اویسیہ ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک کافی نہیں۔ ایسے شخص سے غلطیاں واقع ہوسکتی ہیں، کیوں کہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہر جزئی کی تحقیق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کرسکے اور اگر ہو بھی تو احتمال ہے کشف کے غلط ہونے کا، محض روحانی طور پر فیض ہونے سے نسبت میں تو قوت ہوجاتی ہے لیکن حقیقتِ طریق معلوم نہیں ہوسکتی۔ ۵۸) فرمایا کہ بیعت کے بعد جو نفع ہوتا ہے وہی بلا بیعت کے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ نفع کا دارومدار بیعت پر نہیں۔ عرض کیا گیا کہ پھر بیعت بدعت ہے؟ اگر بدعت ہے تو اس کو ترک کردینا چاہیے۔ فرمایا کہ بیعت بدعت نہیں، بیعت کو ضروری سمجھنا بدعت ہے، بلکہ بیعت ایک سنتِمستحبہ غیرضروریہ ہے۔ ۵۹) فرمایا کہ اہلِ فن کے نزدیک وصولِ نفع کے لیے جو یہ شرط ہے کہ شیخ سے سارے تعلقات سے زیادہ قوی تعلق ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ استفادہ کے وقت اس کو ظنًّا اَنفع سمجھے اور اس ظن کا درجہ اتنا ہونا چاہیے کہ دوسری طرف نگرانی سے اس کو مانع ہو۔ پھر جب ایک معتدبہٖ زمانہ تک نفع نہ ہو اوّل اسی شیخ سے اس کی وجہ تحقیق کرے، اگر تسلی نہ ہو تو پھر دوسرے سے استفادہ کرے، اسی ظنِ مذکور کے ساتھ باقی مغلوب المحبت ہونا ضروری نہیں۔ ۶۰) ایک مرید نے لکھا کہ بعض وقت یہ خیال آکر کہ لوگ ریاکار کہیں گے یا اچھا کہیں گے تو نفس خوش ہوگا نفل وغیرہ پڑھنے سے باز رہتا ہوں۔ کیا یہ ناکارہ ہر طرح سے محروم ہی رہے گا؟ تحریر فرمایا کہ ریا کا خیال تو شیطانی خیال ہے، باوجود اس خیال کے بھی کام کرنا چاہیے، اور مجھ سے کیا پوچھتے ہو کہ محروم رہوگے یا کیا، مجھ کو تو اپنا ہی حال معلوم نہیں۔ پھر یہ کہ اپنی کوتاہی جب سبب محرومی کا ہو تو دوسرا علاج کیا کرے۔ معلم کا کام اتنا ہے کہ طالب کام کرے اور اطلاع حالات کی دے کر جو کچھ پوچھنا ہو اس سے پوچھے۔ بدون اس کے کوئی کھیر تو ہے نہیں کہ چٹادی جاوے گی۔