کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
کے ساتھ مشغول ہوکر آیندہ کے لیے معطل ہوجاتا ہے۔ ۵۶) ایک صاحب دہلی کے آئے۔ وہ ایک واعظ کے پاس رہے تھے۔ رات دن خدمت کرنے کے خوگر تھے۔ بعد کو ان کا میلان بدعت کی طرف دیکھ کر یہاں آئے، ان کی عادت تو اسی کی پڑی ہوئی تھی۔ مجھ سے بھی بھوت کی طرح لپٹنا چاہا۔ میں نے انہیں نرمی سے سمجھایا، انہوں نے ایک پرچہ لکھ کر دیا کہ مجھے رنج ہوا، آپ نے مجھے محروم رکھا۔ میں نے بلاکر کہا کہ اگر آپ کو مجھ سے اعتقاد نہیں تو میری خدمت میں کوئی سعادت نہیں جس کی محرومی کا رنج کیا جاوے اور اگر اعتقاد ہے تو یہ عجیب بات ہے کہ آپ مجھے سعادت سے محروم کرنے والا سمجھتے ہیں۔ جب آپ مجھے ایسا سمجھتے ہیں تو میں آپ کا دُشمن دین ہوں۔ پھر یہاں آپ کا رہنا فضول ہے، تشریف لے جائیے۔ تب ان کی آنکھیں کھلیں۔ پھر میں نے کہا کہ تمہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جو کچھ مجھ کو کہا جاوے گا وہی ٹھیک ہوگا۔ پھر فرمایا کہ حضرت! میں نے اپنے کسی بزرگ کی خدمت ہاتھ پاؤں کی کبھی نہیں کی کہ شاید مجھ سے نہ آوے تو انہیں تکلیف ہو۔ ۵۷) فرمایا کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ گربۂ زندہ بہ از شیر مردہ۔ یعنی زندہ شیخ سے جو فیوض و برکات حاصل ہوسکتے ہیں وہ مردہ شیوخ سے نہیں ہوسکتے۔ موٹی بات ہے کہ اس طریق میں سخت ضرورت تعلیم کی ہوتی ہے اور عادتاً مُردوں سے تعلیم نہیں ہوسکتی۔ گو وہ برزخ میں احیا سے بڑھ کر متصف بالحیاۃ ہوں۔ ہاں تقویتِ نسبت ہوسکتی ہے، لیکن نری تقویتِ نسبت سے کیا ہوتا ہے؟ کوئی ہزار پہلوانی کا زور رکھتا ہو لیکن داؤ نہ جانتا ہو تو وہ کچھ بھی نہیں، ایک بچہ اسے چت کردے گا۔ نری تقویت سے کیا ہوتا ہے؟ صنعت بھی تو چاہیے۔ روایت کا سلسلہ آخر عبث تھوڑا ہی ہے، مرغی بے مرغ کے بھی انڈے دیتی ہے لیکن خاکی انڈے سے بچے نہیں نکلتے، اسی طرح گو وہ خود کچھ ہوجاوے لیکن ایسے شخص سے دوسرے کو نفع نہیں پہنچ سکتا۔ اوّل تو خود اسی کے منتفع ہونے میں کلام ہے کیوں کہ ایسے شخص کو جو مدعی ہے نسبتِ اویسیہ کا اگر کوئی عقبہ پیش آوے تو وہ کسی سے پوچھے گا نہیں، کیوں کہ