کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
یہ پسند آیا۔ اسی واسطے حدیث میں آیا ہے کہ اے عائشہ! کسی نیک عمل کو حقیر نہ سمجھنا۔ ہر نیک عمل میں خاصیت مغفرت کی ہے، اسی طرح ہر گناہ میں خاصیت عذاب کی ہے چاہے چھوٹا ہو، چاہے بڑا ہو۔ ۵۳) فرمایا کہ ایک صاحب نے لکھا کہ بعض لوگ مجھ کو مشورہ دیتے ہیں کہ بانوں کی دوکان کر لو۔ کوئی کہتا ہے کہ دواؤں کی دوکان کرلو تو مجھ کو کیا کرنا چاہیے؟ میں نے لکھ دیا کہ میر اباپ نہ کھٹ بُنا تھا نہ پنساری، مجھے ان چیزوں میں تجربہ نہیں۔ کسی تجربہ کار سے معلوم کرکے عمل کرو۔ میرے دو کام ہیں۔ ایک دعا کرالو چاہے وہ دنیا ہی کے لیے سہی وہ بھی عبادت ہے۔ دوسرے اللہ کا نام پوچھ لو۔ پھر فرمایا کہ اتنا تو یہ لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کو تجربہ نہیں مگر پھر بھی ایسی بات پوچھنے کی کیا وجہ؟ یوں سمجھتے ہیں کہ اللہ والوں سے پوچھ کر اس لیے کرنا چاہیے کہ ان کے دل میں وہی آوے گی جو ہونے والی ہے حالاں کہ یہ غلو ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اس مشورہ کا منشا عقائد کی خرابی ہے۔ میں اس جہل سے بھی لوگوں کو بچانا چاہتا ہوں کہ دھوکے میں نہ رہیں، اور بعض حضرات جن کا مجھ سے بے تکلفی کا تعلق ہے ان سے معلوم ہوا کہ عوام کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ جو کہتے ہیں وہی ہوجاتا ہے۔ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت یہی عقیدہ ہمارا بھی ہے کہ وہی ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ اعتقاد میں بھی درجات ہیں اور بنا جدا جدا ہیں ، عوام کے اعتقاد کی تو نوعیت بہت ہی خراب ہے، وہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ خلاف ہو ہی نہیں سکتا۔ بخلاف اہلِ علم کے کہ ان کا اعتقاد اس درجہ کا نہیں ہوسکتا۔ ۵۴) فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں ظاہری محاسبہ نہ تھا، مگر برکت اتنی زبردست تھی کہ محاسبہ میں وہ کام نہیں بن سکتا جو حضرت کے یہاں بلامحاسبہ ہی بن جاتا تھا۔ یہ محض حضرت کی برکت تھی۔ ۵۵) فرمایا کہ یہ طریق بہت ہی نازک ہے اس لیےراہبر کامل کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات ماضی پر افسوس کرنا بھی حجاب مستقبل کا ہوجاتا ہے کہ اس تأسف میں غلو