کشکول معرفت |
س کتاب ک |
بلاصحبت کے بے کار ہے، صاحبِ صحبت بلاعلم کی اصلاح زیادہ ہوتی ہے صاحبِ علم بلاصحبت سے۔ اسی واسطے میں کہا کرتا ہوں کہ انگریزی خواں بچوں کو صلحاء و علماء کے پاس بھیجا کرو اور بڑے بھی اس کا خیال رکھیں تو بڑا فائدہ ہو، اور ہم اس کا وعدہ کرتے ہیں کہ ہم نہ ان کے پائنچوں پر اعتراض کریں گے نہ ان کی داڑھی سے ہمیں بحث ہوگی، نہ ہم ان کو مار مار کر نماز پڑھاویں گے، وہ ہمارے پاس بیٹھیں گے تو ان کو ہم سے اور ہم کو ان سے اُنس ہوگا اور دین سے مناسبت پیدا ہوگی۔ یہ مناسبت جڑ ہے اور علم و عمل اس کی فرع۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سب کے سب عالم نہ تھے، صرف صحبت سے پایا جو کچھ پایا اور ہمیشہ اہل اللہ نے صحبت ہی کا التزام رکھا۔ اتنی توجہ علم کی طرف نہیں کی جتنی صحبت کی طرف کی۔ ۵۲) فرمایا کہ اکثر رئیسوں کو حق تعالیٰ حوصلہ عطا فرمادیتے ہیں ؎ خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آہی جاتی ہے جناب خواجہ صاحب نے عرض کیا کہ اسی طرح بزرگان کاملین دولتِ باطنی دینے میں سخی ہوتے ہوں گے، مگر ان کو اس میں اختیار کیا ہے؟ وہ تو حق تعالیٰ کے قبضہ میں ہے۔ فرمایا کہ ان کے اختیار کی ضرورت نہیں، ان کے قلوب میں یہ برکت ہوتی ہے کہ جو اُن کو راضی رکھتا ہے اور جس کی طرف ان کے قلوب متوجہ رہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر فضل فرما ہی دیتا ہے، تجربہ یہی ہے۔ چناں چہ ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور ایک اور شخص نہر میں وضو کررہے تھے۔ اس شخص نے خیال کیا کہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ مقبول بندے ہیں، میرا مستعمل پانی ان کے پاس جاتا ہے، یہ بے ادبی ہے، اس لیے وہ اُٹھ کر دوسری طرف ان کے نیچے جا بیٹھا۔ بعد انتقال کے اس کو کسی نے خواب میں دیکھا پوچھا کہ مغفرت ہوگئی یا نہیں؟ کہا کہ میرے پاس کوئی عمل نہ تھا، اس پر مغفرت ہوئی کہ تو نے ہمارے مقبول بندے احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا ادب کیا تھا، ہمیں