کشکول معرفت |
س کتاب ک |
لیکن دل میں ہے۔ معاملات میں سب کے ساتھ میں یکساں ہوں، کوئی ناز نہ کرے کسی بات کا، کوئی مقرب نہ بنے، ہر شخص کو براہِ راست چاہیے معاملہ رکھنا مجھ سے، میرے یہاں سفیروں کے واسطے کا قصہ نہیں، اس میں بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ۴۸) فرمایا کہ صاحبو! اہل اللہ کی مجالست میں نیت یہ ہونی چاہیے کہ وہاں دین کی باتیں سنیں گے۔ وعظ و نصیحت کی باتیں کان میں پڑیں گی، اور بزرگوں کی نیت بھی دین کی باتیں سنانے کی ہونی چاہیے۔ ہاں! مباح باتوں کی بھی اجازت ہے۔ اس کا مزاج پوچھ لیا، گھر کی حالت پوچھ لی یا اس کی طبیعت کے موافق کوئی اور بات کرلی۔ خواہ ظاہر میں فضول ہی ہو مگر اس خیال سے کہ اس کا دل کھلے گا، اُنس ہوگا، وحشت دور ہوگی۔ تو اس غرض کے بعد وہ فضول نہ رہے گی، اور یہ باتیں اس طرح کرے کہ وہ یہ سمجھ جاوے کہ شیخ کو ایسی باتوں سے ہماری رعایت مقصود ہے۔ ان باتوں کے بعد پھر کام کی باتیں شروع کردے، دین کی باتیں سنادے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو اس نے اپنا فرضِ منصبی پورا نہ کیا۔ ۴۹) ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ اس طریق میں نفع کا مدار مناسبت پر ہے۔ پہلے مناسبت پیدا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ میں جو لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ کچھ روز یہاں آکر قیام کرو، اور زمانۂ قیام میں مکاتبت مخاطبت نہ ہو، اس کی صرف یہی وجہ ہے کہ مناسبت پیدا ہوجاوے۔ لوگ اس کو بہت ہی سخت شرط بتلاتے ہیں۔ حالاں کہ اس کی سخت ضرورت ہے۔ جب تک یہ نہ ہو مجاہدات، ریاضات، مراقبات، مکاشفات سب بے کار ہیں، کوئی نفع نہ ہوگا۔ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا اگر طبعی مناسبت نہ ہو اور عقلی پیدا کرلی جاوے۔ فرمایا کہ کوئی بھی ہو، ہونا چاہیے۔ نفع اسی پر موقوف ہے۔ ۵۰) فرمایا کہ طریق مشورہ لینے کا یہ ہے کہ کئی شقوق لکھیں اور ہر شق کے مفاسد اور مصالح لکھیں اور پھر ترجیح کی درخواست کریں۔ ۵۱) فرمایا کہ اصلی چیز اصلاح کے لیے صحبت ہے، علم چاہے ہو یا نہ ہو بلکہ علم بھی