کشکول معرفت |
س کتاب ک |
۴۴) فرمایا کہ اس طریق میں مصلح کے ساتھ مناسبت ہونا بڑی چیز ہے، بدون مناسبت کے طالب کو نفع نہیں ہوسکتا، یہی وجہ ہے کہ میں عدم مناسبت کی بنا پر طالب کو مشورہ دیتا ہوں کہ مجھ سے تم کو نفع نہ پہنچے گا، اگر تم چاہو تو کسی دوسرے مصلح کا نام بتلادوں۔ ۴۵) فرمایا کہ ایک رسالے میں ایک ایسا جامع مضمون لکھا دیکھا کہ اگر وہ ذہن میں آجائے تو پھر سارے رسالے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ میں دین ہونا چاہیے انبیاء کا سا اور سیاست یعنی دارو گیر، محاسبہ، معاقبہ سلاطین کا سا، تجویز اطبا کی سی کہ وہ ہرشخص کا جدا علاج تجویز کرتا ہے۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! انبیاء کا سا دین کیسے ہوسکتا ہے؟ فرمایا یہ مراد نہیں کہ ان کے برابر ہو، مطلب اخلاص میں تشبیہ ہے یعنی اعمال میں غوائلِ دنیا کی اور خواہشاتِ نفس کی آمیزش نہ ہو۔ جس میں یہ باتیں ہوں وہ شیخ ہوسکتا ہے۔ ۴۶) ایک صاحب نے پوچھا کہ شیخ جو القائے نسبت کرتا ہے اس کے کیا معنیٰ ہیں؟ فرمایا کہ اس کی توجہ اور شفقت میں یہ برکت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نسبت القاء فرمادیتے ہیں، جیسے استاد اگر توجہ اور شفقت کے ساتھ پڑھاوے تو شاگرد کے قلب میں اللہ تعالیٰ مضامین القاء فرمادیتے ہیں، پس القاء استاد یا شیخ کا فعل نہیں۔ یہی سبب ہے کہ اس قسم کے اجارے کو فقہاء نے ناجائز کہا ہے کہ مثلاً میرے لڑکے کو حساب کا ماہر کردو، ہاں یہ جائز ہے کہ تم بتلادو، ماہر کردینا کسی کے اختیار میں نہیں اور بتلادینا اختیار میں ہے۔ پھر ان صاحب نے عرض کیا کہ یہ جو مشہور ہے کہ مشایخ بیعت کے وقت القائے نسبت کرتے ہیں اس کا یہی مطلب ہے؟ فرمایا کہ بیعت کے وقت اجمالاً القائے نسبت ہوجاتا ہے یعنی مناسبتِ مجملہ حق تعالیٰ کے ساتھ پیدا ہوجاتی ہے، اہل اللہ کے ساتھ تعلق ہوگیا تو گویا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوگیا۔ بیعت سے گویا ایک خصوصیت ہوگئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ۔ ۴۷) فرمایا کہ زیادہ مقرب بننے سے لوگوں میں حسد پیدا ہونے لگتا ہے۔ میرے یہاں کوئی مقرب نہیں، یہ میں نہیں کہتا کہ مجھے کسی سے خصوصیت نہیں، جس سے ہے