کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
۴۲) فرمایا کہ یہ طریق بہت ہی نازک ہے، اس میں قدم رکھنے سے پہلے اپنی شان، اپنے کمالات سب کو فنا کردے اور مصلح کی ہر بات اور ہر تعلیم پر عمل کرنے کے لیے اپنے کو آمادہ کرلے، اس راہ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ایسا بن جاوے، فرماتے ہیں ؎ در رہِ منزلِ لیلیٰ کہ خطر ہاست بجاں شرطِ اوّل قدم آن است کہ مجنوں باشی حتیٰ کہ جوتیاں کھانے تک کو تیار ہوجائے اور جو جوتے کھانے کو تیار ہوگیا اس نے گویا جوتیاں کھا ہی لیں اور اس کی اصلاح ہو ہی گئی۔ آمادہ ہونا ہی تو مشکل ہے، اس لیے کہ آمادگی وہی معتبر ہے جو خلوصِ دل سے ہو اور خلوصِ دل سے وہی آمادہ ہوتا ہے جو اپنی شان نہیں رکھتا اور یہ ہی اصل چیز ہے کام کی کہ اپنے کو مٹادے، فنا کردے، ورنہ محض جوتیاں کھانے سے بھی کیا ہوتا ہے؟ ۴۳) فرمایا کہ میں اہلِ طریق کے لیے ہمیشہ اس کا خیال رکھتا ہوں کہ ہر کام سہولت سے ہوجائے، حتیٰ کہ بڑے بڑے مقاصد سہولت سے حاصل ہوجاتے ہیں اور یہ موقوف ہے صحبت پر، مرید کو شیخ کی خدمت میں ایک مدت خاص تک رہنا ضروری ہے، اس مقصود میں خاص خاص سہولت ہوجاتی ہے، رہا یہ کہ کس قدر مدت میں کام ہوجاتا ہے اس کا تعین مشکل ہے۔ یہ مناسبت پر موقوف ہے، اگر اہلِ استعداد ہوتا ہے بہت جلد کام ہوجاتا ہے۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کُل پینتالیس روز رہے، اس کے بعد حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم دے چکے جو کچھ دینا تھا۔ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اس وقت کا یہ فرمانا حضرت کا کہ ہم دے چکے جو کچھ دینا تھا سمجھ میں نہ آیا کہ کیا دیا، مگر پندرہ برس کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دیا تھا۔ پھر اس پر مولانا گنگوہی نے مزاحاً فرمایا کہ اگر ہم جانتے کہ یہ چیز ہے تو اتنی محنت کیوں کرتے۔ اس پر حضرت مولانا نے مزاحاً فرمایا کہ مل جانے پر فرماتے تھے ورنہ پندرہ برس تو معلوم ہی ہونے میں لگ گئے۔