کشکول معرفت |
س کتاب ک |
دینی نقصان بواسطہ بھی ہوسکتا ہے، گو بلاواسطہ دینی نقصان نہیں ہوتا۔ ۳۷) فرمایا کہ زیادہ راہ زن اس طریق کا کبر ہے۔ مثلاً بُرا ماننا اصلاح سے، اور فرمایا کہ تعلیم بدون صحبت کے کافی نہیں ہوتی، زیادہ تر صحبت کی ضرورت ہے۔ ۳۸) فرمایا کہ جس سے معتقد ہو اس کے کہنے کو بُرا نہ مانے، تھوڑی دیر صبر کرے، شاید یہ امتحان ہی لیتے ہیں، پھر فرمایا کہ اگر وہ اس کا امتحان ہوا اور پہلے سے بتلادے تو پھر امتحان ہی کیا ہوا۔ ۳۹) فرمایا کہ جب تک فنا کی کیفیت غالب نہ ہو اس کو مشتاق یا محب نہیں کہہ سکتے اور محبت کے اس درجہ کا انسان مکلف نہیں، مگر کمال یہی ہے۔ پھر فرمایا کہ اکثر ایسی محبت اوّل ہی میں ہوجاتی ہے اور اس کیفیتِ عشقیہ کے بڑھنے میں کسی اسباب کی حاجت نہیں اور بیعت میں شیخ کو طالب کی جانب سے ایسی ہی محبت کا انتظار ہوتا ہے، ہاں اگر یہ معلوم ہوجاوے کہ اس کا مذاق ہی نہیں اس وقت میں مجبوری ہے، طبعاً انقیادمحض بدون اس کے نہیں ہوتا بلکہ وساوس کی مزاحمت رائے میں رہتی ہے، اور اگر ایسی محبت ہوجاوے تو پھر واللہ! اگر سرِبازار جوتیاں لگائیں تو قلب پر اثر نہ ہو، اور طبعی حزن الگ چیز ہے، اور اگر ناگواری ہو تو محبت ہی نہیں اور اس کی تحقیق امتحان سے ہوجاتی ہے۔ ۴۰) عرض کیا گیا کہ ’’فروع الایمان‘‘ میں لکھا ہے کہ شیخ کا ایک ادب یہ ہے کہ مرید اپنا سایہ شیخ پر نہ پڑنے دے۔ فرمایا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر شیخ کوئی کام کررہا ہے تو اس کا خیال رکھے کہ اس پر سایہ نہ پڑنے پاوے ورنہ پرچھائیں پڑنے اور اس میں حرکت ہونے سے اس کی یکسوئی میں فرق آکر کام میں خلل پڑے گا۔ غرض اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ہمیشہ خیال رکھے کہ شیخ کو کوئی کلفت یا کدورت نہ ہونے پاوے۔ ۴۱) ایک صاحب نے عرصہ سے خط نہ لکھنے کی وجہ سے شرمندگی ظاہر کی تھی۔ فرمایا کہ شرمندگی کا تدارک یہی ہے کہ حالت سے اطلاع دینا شروع کردیں۔