کشکول معرفت |
س کتاب ک |
مگر دنیوی ضرر لاحق ہوجاتا ہے، آخرت کا ضرر نہ ہوگا گو بواسطہ آخرت سے بھی محرومی ہوجاوے گی کیوں کہ اس مخالفت کا اوّل ضرر یہ ہوتا ہے کہ اللہ کا نام لینے کی حلاوت جاتی رہتی ہے، پھر تعطل ہوجاتا ہے، پھر ترکِ مستحب، پھر ترکِ سنت و واجبات یہاں تک کہ سلبِ ایمان کی نوبت آجاتی ہے، کہیں اگر اس حالت میں بھی ہمت سے شریعت کا کام کرتا رہے تو آخرت کا نقصان نہیں، مگر انشراح و راحت و اطمینان نصیب نہ ہوگا۔ یہ غلط ہے کہ پیر کے ناراض ہوجانے سے اللہ میاں ناراض ہوں گے اور آدابِ طریقت سے کوئی ادب غامض نہیں۔ پیر کو مکدر نہ کیا جاوے، طعن و اعتراض اس پر نہ ہو، پیر سے غلطی ہوجانے پر نصیحت بھی کرے، مگر ادب سے۔ ۳۵) فرمایا کہ پیر کو مکدر نہ کرنا چاہیے، اگر تکدر سے بچنے کا قصد کرے اور تکدر ہوجائے تو اس کا اثر نہیں، اثر ہوتا ہے قلب مبالات کا۔ پس یہ تین حالتیں ہیں، ایک تو دل دکھانے کا قصد ہے، دوسرے دل نہ دکھانے کا قصد نہ ہو، تیسرے دل نہ دکھانے کا قصد ہو۔ پہلی حالت اشد ہے، دوسری اہون، تیسری پسندیدہ ہے۔ دوسری حالت کا باعث قلب مبالات ہے، جس دل میں محبت اور عظمت ہوگی تو بے پروائی نہیں ہوسکتی، اگر قلب مبالات ہے اور بے پروائی ہے تو یا تو محبت کم ہے یا عظمت کم ہے، اگر محبت و عظمت دونوں نہ ہوں تو ایسے موقع پر عقل سے کام لو، سوچ کر کام کرے جس سے تکدر نہ ہو۔ ۳۶) فرمایا کہ شیخ کے قلب کو ہر گز مکدر نہ کرے، اگر اس کو چھوڑنا ہی ہے تو بلااطلاع کے چھوڑ دے ورنہ دنیاوی زندگی اس کی تلخ ہوجاوے گی تادمِ نزع اس کو چین نصیب نہ ہوگا، جس کو یقین نہ ہو وہ آزما کر دیکھ لے۔ اور ایک طرح دین کا نقصان بھی ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ ذوق و شوق جاتا رہتا ہے، اگر ہمت کرے اور طبیعت پر جبر کرے تو دینی اعمال میں کچھ فرق نہیں آتا، لیکن وہ جو ایک خاص قسم کی توفیق و تائید تھی وہ جاتی رہتی ہے، اگر ہمت سے کام لے تو اب بھی قادر ہوسکتا ہے اور اگر ہمت نہ کی تو دینی اعمال کی بھی توفیق نہ رہے گی، اس اعتبار سے شیخ کے تکدر کرنے میں