کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
سلسلہ میں اس قسم کی تعلیم ہے مجھ کو کیا کرنا چاہیے، اس پر اگر شیخ پھر بھی وہی حکم دے تو اس شیخ کو چھوڑ دینا چاہیے، اور اگر وہ ترک کی اجازت دے تو یہ بھی اس کی متابعت ہے، یہ معنیٰ ہیں اتباعِ کامل کے۔ یعنی جو مرضِ نفسانی اس نے تجویز کیا ہو یا جو تدابیر اس نے تجویز کی ہوں یا جو عملِ مشروع جس کا مشروع ہونا شیخ و مرید میں متفق علیہ ہو تجویز کیا ہو، ان چیزوں میں اتباع کامل کرے، ذرا بھی اپنی رائے کو دخل نہ دے، اور باقی امور میں اتباع مراد نہیں۔ ۳۲) فرمایا کہ ذوق پیدا ہوتا ہے اہل اللہ کی صحبت اور ان کی جوتیاں سیدھی کرنے سے جو کہ اعتقاد و انقیاد کے ساتھ ہو کیوں کہ یہاں محض تقلید سے کام چلتا ہے، چون و چرا کرنے سے کام نہیں چلتا ہے ؎ فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ جز شکستہ می نہ گیرد فضل شاہ جیسے کوئی بچہ استاد کے سامنے الف بے لے کر بیٹھے اور اُستاد پڑھاوے کہہ الف اور کہہ بے اور بچہ یوں کہنے لگے کہ الف کی صورت ایسی کیوں ہوئی اور بے کی ایسی کس واسطے ہوئی، تو اُستاد اس سے کہے گا کہ تو اپنے گھر کا راستہ لے۔ بات یہ ہے کہ ابتدا ہر امر کی تقلیدِ محض ہے۔ ۳۳) فرمایا کہ شیخ وہ ہے کہ مصلح ہو، نرا صالح ہونا کافی نہیں۔ ولی کے لیے صالح ہونے کی ضرورت ہے، مصلح ہو یا نہ ہو، اور شیخ ولی ہونے کے لیے دونوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہے کہ صالح بھی ہو اور مصلح بھی ہو، مصلح اگر صالح اور متقی نہیں تو ایسوں کے راستہ بتلانے میں برکت نہیں ہوتی، عادۃ اللہ ہے کہ جو ایسوں سے رجوع کرتے ہیں ان کو طریق پر آمادگی نہیں ہوتی۔ شیخ کو چاہیے کہ اپنے لیے خلوت کا بھی کچھ نہ کچھ وقت تجویز کرے، اس سے بھی برکت ہوتی ہے۔ ۳۴) فرمایا کہ ایک بات سمجھنے کے قابل ہے کہ احکامِ شریعت کے خلاف کرنے سے تو آخرت میں عذاب ہوگا اور آدابِ طریقت کے خلاف کرنے سے معصیت نہیں ہوتی،