کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
۲۶) فرمایا کہ شیخ اور مرید کی مناسبت کے معنیٰ یہ ہیں کہ شیخ کی سب باتیں مرید کو پسند ہوں اور مرید کی سب باتیں شیخ کو پسند ہوں، اور یہی مناسبت شرط ہے بیعت کی، نہ کہ تعلیم کی۔ ۲۷) فرمایا کہ نفع باطنی کا دارو مدار مناسبتِ طبیعت پر ہے اور اس کو خود صاحبِ معاملہ ہی جان سکتا ہے، جب تک دو طبیعتوں میں موافقت نہ ہوگی نفع نہ ہوگا، مرید تو شیخ کو یہی سمجھتا رہے کہ میرے لیے بس جو کچھ ہیں یہی ہیں چاہے وہ کچھ بھی نہ ہوں ؎ ہمہ شہر پر زخوباں منم و خیال ما ہے چہ کنم کہ چشمِ بد خو نہ کند بہ کس نگا ہے ۲۸) فرمایا کہ اگر شیخ سے قطع تعلق کردے تو سب فیوض بند ہوجاویں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کم تعلقی کرکے تو پھر بالکل واردات و فیوض کچھ بھی نہ رہیں گے۔ ۲۹) فرمایا کہ مرید کو شیخ کے قلب کا انقباض مانعِ فیض ہوجاتا ہے، اس لیے مرید کو اپنے شیخ سے طالب علمی کی حیثیت سے پڑھنا نہ چاہیے، ہاں بلاکتاب کے بیٹھ جانا، تقریر کو سننا اور سوالات نہ کرنا اس کا مضایقہ نہیں۔ ۳۰) فرمایا کہ حقوق الشیخ کا آسان خلاصہ یہ ہے کہ دل آزاری نہ ہو، نہ قول و فعل سے نہ حرکات و سکنات سے۔ ۳۱) فرمایا کہ شیخ کا اتباع مطلق و اطاعتِ مطلقہ نہ عقائد میں ہے، نہ کشفیات میں، نہ جمیع مسائل میں، نہ امورِ معاشیہ میں (مثلاً شیخ طالب سے کہے کہ تم اپنی لڑکی کا رشتہ میرے لڑکے سے یا کسی اور سے کردو) صرف طریقِ تربیت، تشخیصِ امراض و تجویز و تدابیر اور ان مسائل میں ہے جن کا تعلق تربیت و اصلاحِ باطنی سے ہے، وہ بھی اس وقت تک جب تک ان کا جواز مرید و شیخ کے درمیان متفق علیہ ہو اور اگر اختلاف ہو تو شیخ سے مناظرہ کرنا تو خلافِ طریق ہے اور امتثالِ امر خلافِ شریعت ہے، ایسی صورت میں ادب جامع بین ادبین یہ ہے کہ علماء سے استفتا کرکے یا اپنی تحقیق سے حکم متعین کرکے شیخ کو اطلاع کرے کہ میں فلاں عمل کو جائز نہیں سمجھتا اور ہمارے