کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
کہ ان شاء اللہ! میں حق سے نہ ہٹوں گا۔ ۱۹) فرمایا کہ مناسبتِ شیخ (جو مدار ہے افاضہ و استفاضہ کا) اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ شیخ سے مرید کو اس قدر موانست ہوجاوے کہ شیخ کے کسی قول و فعل سے مرید کے دل میں طبعی نکیر نہ پیدا ہو، گو عقلی ہو۔ ۲۰) فرمایا کہ اس طریق میں تکدر قلبِ شیخ مانع و حاجب ہے، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کو جنہوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بُرے طور سے قتل کیا تھا اپنے سامنے آنے سے روک دیا کہ روز روز دیکھ کر انقباض ہوگا اور میرے انقباض سے ضرر ہوگا کہ فیوض و برکات سے حرمان ہوجائے گا۔ ۲۱) فرمایا کہ کسی بزرگ سے تعلق پیدا کرلو، اگر ممکن ہوسکے تو اس کی صحبت میں رہو، اگر اس کے حقوقِ صحبت ادا نہ کرسکو تو اس سے خط و کتابت کرکے اپنے اعمال کی حفاظت رکھو اور شیخ کو اپنے حالات کی اطلاع کرتے رہو اور وہ جو بتلائے اس پر عمل کرو کیوں کہ امراضِ باطنی کی جو دوائیں ہیں وہ ان کی خاصیت خوب جانتا ہے۔ ۲۲) فرمایا کہ اس قسم کے مسائل جن کا تعلق اصلاحِ نفس سے ہے کسی تصوف کی کتاب میں دیکھ کر اس پر عمل کرنا اس شرط سے درست ہے کہ فہم میں یا حدود و شروط میں غلطی نہ ہو، لیکن ان غلطیوں کا احتمال عادتاً غالب ہے، اس لیے بدون مشورہ کسی شیخ مبصر کے خود عمل مناسب نہیں، البتہ مناسب ہے کہ اس علاج کو نقل کرکے مشورہ کرلے۔ ۲۳) فرمایا کہ تعلق فی اللہ والے کی رضا کا قصد اللہ ہی کی رضا کا قصد ہے اور وہ عینِ اخلاص ہے، مثلاً شیخ کے خوش کرنے کے لیے تہجد پڑھنا خلافِ اخلاص نہیں۔ ۲۴) فرمایا کہ اس طریق میں سب سے زیادہ جو مضر چیز ہے وہ معلّم پر اعتراض ہے، اس کا ہمیشہ خیال چاہیے۔ ۲۵) فرمایا کہ اصل بیعت تو انقیاد و اعتقاد ہے کہ ایک شخص راہ بتانے والا ہو اور تم اس کا اتباع لازم سمجھو، بیعتِ صوری کی ضرورت نہیں۔