کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہوا ہے ہمیشہ ممنون رہنا چاہیے ورنہ ناشکری موجبِ زوال ہوجاتی ہے۔ ۸) فرمایا کہ بیعت کی حقیقت ہے اعتقادِ جازم اپنے تعلیم کرنے والے پریعنی اس کو یہ یقین ہو کہ یہ میرا خیرخواہ ہے اور جو مشورہ دے گا وہ میرے لیے نہایت نافع ہوگا۔ غرض اس پر پورا اطمینان ہو اور اپنی رائے کو اس کی تجویز و تشخیص میں مطلق دخل نہ دے۔ ۹) فرمایا کہ طالب کو اپنے شیخ کے سامنے اپنی رائے کو بالکل فنا کردینا چاہیے۔ دو چیزیں لازمۂ طریق ہیں: اتباعِ سنت اور اتباعِ شیخ، جب یہ حالت مرید کی نہ ہو کہ اگر شیخ جان بھی مانگے تو بھی دریغ نہ کرے تب تک کچھ لطف بیعت کا نہیں۔ ۱۰) فرمایا کہ جو ذکر و شغل کے لیے آوے اس کو کسی بات سے تعلق نہیں رکھنا چاہیے، بس اپنے کام میں مشغول رہے نہ کسی کا پیام پہنچاوے نہ کسی کا سلام شیخ کو پہنچاوے۔ خود بھی کسی اور جانب متوجہ نہ ہو اور نہ شیخ کو متوجہ کرے، بلکہ جہاں تک ہوسکے شیخ کو اپنی طرف متوجہ رکھے، اگر کسی کا سلام پہنچایا تو گویا اس نے خود اپنے شیخ کو دوسرے کی طرف متوجہ کیا جو اس کی مصلحت کے بھی منافی ہے اور غیرتِ عشق کے بھی خلاف ہے۔ ۱۱) ایک شخص نے دریافت کیا کہ کوئی بیعت تو ایک شیخ سے ہے اور تعلیم دوسرے شیخ سے باجازت یا بلااجازت شیخِ اوّل کے حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے لیے افید و انفع و افضل ہونے کا اعتقاد کس کے ساتھ رکھے؟ فرمایا کہ ثانی کے ساتھ، مگر اوّل کو اس نفع کا سببِ بعید یعنی سبب السبب سمجھے اور اس کے ساتھ گستاخی نہ کرے۔ ۱۲) فرمایا کہ جب کوئی مرض یاد آجائے اس کو فوراً نوٹ کرلیا کرے اور ایک ہفتہ تک دیکھا کرے کہ وہ زائل ہوا یا نہیں، اگر زائل نہ ہوا تو نفس کو اور مہلت نہ دے بلکہ مصلح کو اطلاع کردے۔ ۱۳) فرمایا کہ اخلاقِ رذیلہ کا مختصر علاج یہ ہے کہ تامُّل و تحمل یعنی جو کام کرے سوچ کر کرے کہ شرعاً جائز ہے یا نہیں اور جلدی نہ کرے بلکہ تحمل سے کام کیا کرے یا اطلاع و اتباع یعنی اپنے احوال و اعمال سے شیخ کو مطلع کرتا رہے اور اس کی تجویز پر