کشکول معرفت |
س کتاب ک |
|
ہو، کوئی جہل کی بات نہ کرتا ہو، اس کی صحبت میں بیٹھنے کا اثر یہ ہو کہ دنیا کی محبت گھٹتی جاوے اور حق تعالیٰ کی محبت بڑھتی جاوے اور جو مرض باطنی بیان کرو اس کو توجہ سے سن کر اس کا علاج تجویز کرے اور جو علاج تجویز کرے اس علاج سے دم بدم نفع ہوتا چلا جاوے اور اس کے اتباع کی بدولت روز بروز حالت درست ہوتی جاوے۔ ۴) فرمایا کہ ہمت سے اگر انسان کام لے تو کوئی کام بھی مشکل نہیں، اور یہ ہمت پیدا ہوتی ہے کسی کامل کی صحبت میں رہنے سے یا اس سے تعلق پیدا کرنے سے۔ ۵) فرمایا کہ ایسے کو مرید کرنا مناسب نہیں جس کا ادب شیخ کو کرنا پڑے بلکہ ایسے کو کرنا چاہیے جس کو جو چاہے کہہ سکے۔ ۶) فرمایا کہ جب تک نسبت راسخ نہ ہوجائے مختلف بزرگوں سے ملنا اچھا نہیں، کسی کے پاس بقصدِ استفادہ و برکت نہ جاوے، مزارات پر بھی اس قصد سے نہ جاوے، اور بعد رسوخِ نسبت خود ہی جانے کو دل نہ چاہے گا۔پھر فرمایا کہ طالب کا تو اپنے شیخ کی نسبت یہ مسلک ہونا چاہیے ؎ ہمہ شہر پر زخوباں منم و خیال ما ہے چہ کنم کہ چشمِ بد خو نہ کند بہ کس نگا ہے وہ عورت فاحشہ ہے جو اپنے خاوند کے سوا دوسرے پر نظر کرے۔ اسی طرح مرید کو شیخ کے علاوہ کسی دوسرے پر نظر نہ کرنی چاہیے، شیخ کو یہ سمجھے کہ میرے لیے سب سے انفع یہی ہے، اس کو وحدتِ مطلب کہتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ جس طرح وحدتِ مطلوب ضروری ہے اسی طرح وحدتِ مطلب ضروری ہے، البتہ نسبت راسخ ہوجانے کے بعد پھر جہاں چاہے جاوے، جہاں چاہے اُٹھے، جہاں چاہے بیٹھے۔ ۷) فرمایا کہ بعد تکمیل کے پھر شیخ کا دخل تربیت میں نہیں رہتا، نہ حاجت رہتی ہے، خود منجانب اللہ بلاواسطہ اس کی تربیت ہوتی رہتی ہے، طالب شیخ سے مستغنی ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ مشاطہ بنا سنوار کر دلہن کو دولہا تک پہنچادیتی ہے، اس کے بعد پھر وہاں اس کا گزر نہیں ہوتا۔ البتہ شیخ کا جس کی بدولت اس کو یہ وصول الی اللہ میسر